Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Ali Raza Ahmad Mazah Man

Ali Raza Ahmad Mazah Man

مزاح نگاری صرف ہنسنے ہنسانے کا نام نہیں بلکہ تمام تر تضادات سمیت زندگی کے بامعنی ہونے کا احساس اور انسانی و معاشرتی رویوں کی بہترین ترجمانی ہے۔ اس عمل میں مزاح نگار کی بصیرت اور مشاہدہ زندگی کے افادی رویوں کو اجاگر کرتا ہے اور علی رضا احمد کی صورت پرفیکٹ مزاح مین (man) ہمارے سامنے آتا ہے۔ علی رضا احمد سنجیدہ شاعر بھی ہیں اور دیدہ ور مزاح نگار بھی۔

مزاح نگاری کے ساتھ سنجیدہ شاعری دو رخی تلوار ہے۔ جس طرف سے چاہیں وار کر سکتے ہیں۔ روتوں کو ہنسانا اور ہنستے چہروں پر ملال چھڑکنا زیادہ دشوار نہیں۔ اس کمبینیشن کے متعلق لکھتے ہیں۔ "میرے باطن کا درویش مجھے شاعری لکھنے کی طرف مائل کرتا رہتا ہے۔ میرے اکثر اشعار آپ کو ایک صوفی کی شال اوڑھے ملیں گے۔ میں نے معاشرتی نا ہمواریوں کو مزاح کے طنز میں ڈھالنے کی کوشش کی اور نسبی درویشی کو شاعری میں"۔

مزاحیہ نثر میں ان کے نشتر پر فکر بھی ہیں اور پر اثر بھی۔ گل نوخیز اختر نے انھیں پر امن "مزاح مین" کا خطاب دیا ہے کیونکہ وہ انتشار باہمی کی مثبت سرگرمیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ "مزاح مین"کے انتساب سے ہی مزاح پر ایمان کی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں، "شگفتہ تحریریں استوار کرنے والوں کے نام، جنھیں تخلیق کاری میں بعض اوقات مضطرب و متامل و مغموم ہونا پڑتا ہے مگر وہ تصنیفی تعمیری اور تسطیری تحرک جاری رکھتے ہیں اور کبھی تعصب، تشکیک اور تضاد سے کام نہیں لیتے"۔

علی رضا نے مزاح پاروں میں لگی لپٹی رکھے بغیر تاک کر نشانہ باندھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم معاشرتی ناہمواریوں کے علاج میں ذرہ بھر بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔ معاشرتی ناسوروں کو پالنے پوسنے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے کریہہ چہرے دکھا دکھا کر پختہ بھکاری بن چکے ہیں۔ "مزاح راہ" اور"مزاح مین" کے عنوانات پر فکر بھی ہیں اور "پر مکر" بھی۔ چند عنوانات دیکھیے۔۔ اعضائے ترکیبی، مٹی مصالحہ، گاندھی اور ساہیوال، "مجرے مانہ" حرکتیں، سر خواب کے پر، چاقو چوبند، طبعی مشورے۔

یہ عنوانات دیگ کا دانہ نہیں۔ دیگ کے نیچے جلتا ایندھن ہے جس پر دیگ کا دارومدار ہے۔ آنچ کم ہے نہ زیادہ۔ ترکیب ایسی ہے کہ تاب لاتے نہ بنے۔ علی رضا کے جملے نک سک سے اپنی جگہ پر جمے رہتے ہیں، آپ کسی بھی منظر پر انھیں چسپاں کر سکتے ہیں۔ جب تک ہمارے نظام میں رخنے نظر آتے رہیں گے علی رضا کے پر فکر مزاح کی گولیاں علاج کا کام کرتی رہیں گی۔ حالیہ منظر نامے پر فٹ ہونے والی چند مثالیں دیکھیے۔

"عدالتی مسائل پر ہنس ہنس کر اس کی ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے "۔

"سیاست ایک ایسا آرٹ ہے جس میں سانپ اور نیولے کا عارضی معاہدہ کرایا جا سکتا ہے"۔

"اگر انسان صرف تراش خراش کا ماہر ہو تو وہ انسانی تہذیب کا ڈیزائن بدل سکتا ہے"۔

تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے اگر ایک ہاتھ سے بج رہی ہو تو سمجھ لیں کوئی خفیہ ہاتھ کار فرما ہے"۔

"ہماری پارٹی کا اصولی موقف ہے کہ اگر کسی غریب کے پاس رہنے کو گھر نہیں تو اسے اپنے دائرے میں رہنا چاہیے یا قانون کے"۔

"ہمارے ہاں منتخب وزیراعظم کو فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیے ہمیشہ کاٹھ کی کمزور کرسی ہی دی جاتی ہے"۔

گیس صارفین اس سال متعارف ہونے والے بالکل سوئی جیسے "کونیکل بیفل"کے راز سے بھی آگاہ ہو چکے ہیں۔ آپ جلد ہی اس سوئی کے ناکے سے اونٹ کے گزرنے کا تماشا بھی دیکھ لیں گے۔ علی رضا کے جملوں کی کاٹ رنگ کاٹ جیسی ہے۔ جس میں من پسند رنگ بھرا جا سکتا ہے۔ معاشرتی نا انصافی پر وہ بہت سلیقے سے جملے کاڑھتے ہیں۔ جن میں مختلف گوشوں اور کرداروں کے رنگوں کا تضاد نمایاں دکھائی پڑتا ہے۔ سماجی نا ہمواری پر علی رضا کے قلم کی کاٹ منٹو کے "آتش پارے" سے کم نہیں۔

لکھتے ہیں"مزدور کسی بھی فیکٹری کا روپوش پتھر ہوتا ہے اور سارے کاروبار کی عمارت اس کے کاندھوں پر کھڑی ہوتی ہے۔۔ "گاہکوں کو اپنے "دام" میں پھنسانے کے لیے ایک دام" کا لوگو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ انسانی رویوں پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ "کئی دفعہ غصہ میں بھری آنکھوں کو اتنا باہر نکال لیا جاتا ہے کہ جھڑک اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی ہے۔ جھڑکیں ہوتی کیا ہیں؟ یہ پانی کی طرح اوپر سے نیچے کی طرف رواں ہوتی ہیں"۔ "کمیٹی ایک غیر ممکن کام کے لیے غیر مناسب اور غیر ارادہ عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے جو کہ غیر مناسب اوقات میں ترتیب دی جاتی ہے"۔

علی رضا احمد کی شاعری میں محبت کی فراوانی اور اخلاقیات کی حکمرانی ہے۔ حمدیہ اشعار سے شاعری کا آغاز کرنے والے شاعر کے ہاں زیادہ تر موضوعات اخلاقی سوز سے پر ہیں۔ خرد کی تنگ دامانی ہے، میں ہوں زمانے بھر کی حیرانی ہے، میں ہوں نمرود کی مٹی ہو کہ ہامان کی مٹی مٹی میں ملی دیکھی ہے سلطان کی مٹی اس دور میں اڑتی ہوئی دیکھی ہے ہوا میں وہ علم کی مٹی ہو کہ عرفان کی مٹی تم مادہ حیات پر ثابت قدم رہو چلنی ہے جو بھی چال وہ انسان کی چلو۔

معاشرتی عدم تکمیل اور بے ڈھنگے پن کے احساس کو شدید تر کرنے والا مزاح نگار حسن انسانیت میں خیر کے آہنگ سے تصویر کشی کرنے والا شاعر ہے۔ جو ذوق فکر کی آسودگی سے معاشرہ میں خوشی کے رنگ بکھیرنے کا خواہاں ہے۔ جس کو حرف سند کی صورت عطا الحق قاسمی کی شاباشی میسر ہے۔ وہ لکھتے ہیں، "اگر کسی مزاح نگار کی تحریر ہمیں غوروفکر پر بھی مجبور کرتی ہے تو اس کے 25 نمبر علیحدہ ہیں اور علی یہ اضافی نمبر کبھی نہیں چھوڑتا"۔