Friday, 14 March 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Saadia Bashir
    4. Jo Aib Tha Usay Bhi Hunar Keh Dia Gaya

    Jo Aib Tha Usay Bhi Hunar Keh Dia Gaya

    جمہوریت وہ طرز حکومت ہے۔ جس میں ووٹ کی اہمیت تو ہے لیکن رائے، دلیل، عقل و شعور کو کسی پلڑے میں نہیں تولا جاتا۔ یعنی انسانوں کو بس گنا جاتا ہے ان کی صلاحیتوں کی قدر نہیں کی جاسکتی۔ ہر ملک کی آبادی میں بھی بس گنتی ہوتی ہے۔ اس کا حساب کب رکھا جاتا ہے کہ ان میں ذہنی مریض اور امراض فاسدہ کتنے ہیں جو نہ صرف معاشرہ بلکہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی 440 والٹ کا خطرہ ہیں۔ خیر یہ الگ موضوع ہے۔ لاہور بورڈ تو گننے کے معاملے میں بھی کمی بیشی کا کوئی پیمانہ اب تک وضع نہیں کر سکا۔ کون نہیں جانتا ک قریب قریب تمام شعبہ جات میں سکروٹنگ کے عمل میں ڈویژن کو گنا جاتا ہے۔ تولنے کا پیمانہ یہاں بھی دھندلا ہے۔

    بات ہے رپورٹ کارڈ کی جو تحریری دستاویز کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس رزلٹ کارڈ پر مارکس اہم ہوتے ہیں جو نہ صرف طالب علم کی تعلیمی کارکردگی کے لیے مقداری پیمانہ کے طور پر کام کرتے ہیں بلکہ بہت سی صورتوں میں طالب علم کے لیے مستقبل کی چابی کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ اعلیٰ نمبر اور ڈویژن یا گریڈز باوقار یونیورسٹیوں، اسکالرشپس اور کیریئر کے مواقع اور دروازے کھول سکتے ہیں، جبکہ کم نمبر مقابلہ میں پیچھے دھکیلنے سے لے کر مقابلے سے باہر کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ نمبروں میں آخری درجہ تھرڈ ڈویژن ہے۔ جس کے المیہ کو ضمیر جعفری کی نظم۔ "میں تھرڈ ڈویژنر ہوں، مجھے مار ڈالیے۔ "خوب عیاں کرتی ہے۔

    میں پاس ہوگیا ہوں مگر پھر بھی فیل ہوں
    تعلیم کے اداروں کے ہاتھوں میں کھیل ہوں

    جس کا نشانہ جائے خطا وہ غلیل ہوں
    میں خاک میں ملا ہوا مٹی کا تیل ہوں

    اور یونیورسٹی بھی نہیں ہے ریفائزی
    صورت بھی تصفیے کی نہیں کوئی ظاہری

    تصفیہ کی صورت کیسے نکلے جب استاد سانپ کا منکہ تھامے طلبہ کے مستقبل سے کھیلنے میں دلچسپی رکھتے ہوں اور سرکاری مشینری ایک ادارہ گرا کر قریب ہی نیا تعمیر کرنے میں مگن ہو۔

    حالانکہ "نیا نو دن، پرانا سو دن" تجربات کی عرق ریزی ہے۔ ہر ادارہ سے دکان تک اس کے قیام کی تاریخ اس کے معیار اور بقا کی ضمانت ہے۔ لیکن ہم مکھی پہ مکھی مارنے سے باہر نہیں دیکھ سکتے۔ ایک ایک نمبر کے فرق سے ڈویژن کا فرق پڑ رہا ہو تو کیا ادارہ کا فرض نہیں کہ اس کے لیے کوئی نظام وضع کیا جائے۔ کتنی دیر لگتی ہے فلٹر لگا کر نمبرز کی تعداد لگالنے میں۔ جب ہر مضمون میں پاس کرنے کے لیے اضافی نمبر دیے جا سکتے ہیں تو زندگی بھر کے لیے 659 نمبرز پر سیکنڈ ڈویژن کا ٹھپہ لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نمبر گیم کی کیا اہمیت ہے۔

    آئینی ترمیم مقصود ہو یا کوئی بل پاس کروانا ہو۔ نمبر گیم کی منڈی بھی لگتی ہے اور خفیہ رابطے بھی آزمائے جاتے ہیں۔ انھی خفیہ رابطوں کی مضبوطی نمبرز کی تقسیم سے طبقاتی نظام کی بنیاد رکھنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں رزلٹ کارڈز، مارکس شیٹ یا اسناد طلبہ کا تعارف دیتی ہیں نہ ہی اس کی دلچسپی اور صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہم تو کونسلنگ بھی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اگر ایک نظام کام کر رہا ہے تو اس سے منسلک خامیوں اور کم زوریوں کو رفو کرنا صاحبان اختیار کا بنیادی فرض ہے۔

    رپورٹ کارڈ کو سامنے رکھ کر اس میں ردو بدل کا جائزہ لیا جائے اور بار کوڈ کے ساتھ اس پر عمل بھی کیا جائے۔ ورنہ ایک نمبر سے ڈویژن میں پیچھے رہ جانے والے اس ناانصافی کا نتیجہ بھگتتے رہیں گے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ڈویژن کا فرق طے کرنے کے لیے پانچ نمبرز دیے جاتے ہیں۔ تمام بورڈز بھی اس اصول پر رزلٹ بنا سکتے ہیں۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں جہاں نمبرز اور ڈگری سے زیادہ ہنر، سکلز اور دلچسپی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ہمیں بھی ایسا نظام ترتیب دینے کی ضرورت ہے جیاں کم از کم چھ ماہ طلبہ کا آزادانہ طور پر پڑھنے، کام کرنے، پڑھانے یا پھر ہفتہ وار مصروفیات کے متعلق رپورٹ لکھنے کی مشق کروائی جائے۔

    اس طریق سے طلبہ میں نہ صرف اعتماد بڑھے گا بلکہ ان کی گرومنگ بھی ہوگی۔ ویڈیو کلچر سے جان چھوٹے گی۔ ہر مضمون کے پیپر میں ایک آزاد سوال رکھا جائے۔ جس کا تعلق نصاب سے نہیں۔ عملی زندگی کی اقدار و معاملات سے ہو۔ یہ ہمارے بچوں کا حق ہے کہ وہ زندگی کا کچھ حصہ تو تعلیمی اداروں میں صحت مندانہ مثبت ماحول میں گزار سکیں اور نمبر گیم کے خوف سے آزاد ہو سکیں۔ یہ ہی نمبر گیم ہے جو طلبہ کو احساس کمتری میں دھکیلتی ہے۔ نمبروں کی کمی بیشی پر استاد بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے۔ اس کی تادیب کیسے ہوگی۔

    شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
    عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے

    (میر تقی میر)

    بہت سے تعلیمی اداروں میں اگر ایک خوف کے زیر اثر طلبہ کی شخصیت مسخ کی جاتی ہے۔ کیونکہ تخلیقی وفود سے بھر پور طلبہ کو بھی بہت سے اساتذہ گھسیٹ کر اپنے بنائے نوٹسز کی سطح پر لے آتے ہیں۔ سوال کا حق چھین کر انھیں عضو معطل صرف ووٹ بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ دلیل و شعور کے منطقی نتائج کو فروغ دینے کے لیے پروگرام تشکیل دیے جائیں اور ان کی بنیاد پر لگے باندھے ضابطوں کو ہوا لگائی جائے تاکہ جمود کی بساند سے آزادی مل سکے اور ہمارے بچے آنکھیں کھول کر ہوا، فضا اور مشرق سے ابھرتے سورج کو اپنی نظر سے دیکھ سکیں اور اپنی آزادی کو محسوس کر سکیں۔ وہ آزادی جس کا شکرانہ ہم پہ واجب ہے اور وہ آزادی جو ان شاءاللہ کشمیریوں کا بھی مقدر ہوگی۔