Thursday, 21 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Khatakar Samjhe Gi Dunya Kise

Khatakar Samjhe Gi Dunya Kise

چنو منو ہر روز کی طرح رات گئے گھر پہنچے تو پوچھنے والوں نے انھیں دیکھتے ہی پہچان لیا کہ ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی ناکام لوٹے ہیں۔ خاموشی کے سوال جواب میں اس ناکامی کی آواز گھنٹی کی مانند واضح سنائی دی۔ بستی کے محنت کش ہاتھ خوب جانتے تھے کہ ان کی کوئی قدر نہیں۔ بس وہ عادتاََ محنت کرنے پر مامور کیے گئے تھے۔ چنو منو تو روزانہ دراصل ان نادیدہ ہاتھوں کی تلاش میں نکلتے تھے جو کسی کی پشت اور کسی کے سر پر ہما کی مانند پیوست تھے اور بزور طاقت آکٹوپس بن چکے تھے۔

بستی کے سب لوگوں کا واسطہ کسی نہ کسی صورت ایسے کم زور انسانوں سے پڑ چکا تھا جو ہر جرم پر چلا کر کہتے "تم جانتے نہیں مجھ پر کس کا ہاتھ ہے"۔ سامنے والے پھونکوں سے واقف تھے لیکن ایسے ہاتھوں سے انجان بس چپ کی تسبیح کے دانے سرکانے لگتے۔ ان کی تقدیر پر بندھا پتھر ہٹانے کی طاقت ان میں نہ تھی۔ وہ تو ایسےہاتھوں کی تصویر تک بنانے پر قادر نہ تھے۔

آخر گردوپیش میں اعلان کروایا گیا کہ جو شخص ان ہاتھوں کی خبر لائے گا جو کسی کی پشت اور کسی کے سر پر چپکے ہنستے رہتے ہیں اس کے اکاونٹ کو پچاس ہزار سبسکرائبر مہیا کیے جائیں گے۔ یک مشت پچاس ہزار سبسکرائبر کا سن کر سب کے منہ میں پانی بھر آیا اور ایسے لوگوں نے بھی اپنے اکاؤنٹ بنا لیے جو "سائینس" کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ ہنوز یہ بات تحقیق طلب ہے کہ جوتا منہ والا ہے یا پاؤں والا۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں گھوڑے اور بیل کے مونھ پر جوتا ہی پہنایا جاتا ہے۔

خیر بات تھی ان ہاتھوں کی تلاش کی جو ہزاروں ارب "غبی ہاتھوں" سے زیادہ ذہین اور قابل تھے۔ لیکن اسے ان کی طاقت کہیے یا مجبوری سمجھیے کہ وہ کسی کی پشت اور سر پر ہی رکھے جا سکتے تھے اور صرف اسی صورت کام کر سکتے تھے۔ کسی نے ان کی صورت نہیں دیکھی تھی سو ان کا سکیچ بنوانا بھی آسان نہ تھا۔ اشاروں کا سفر تھا اور اشاراتی کھوج۔۔ لیکن پچاس ہزار سبسکرائبر کے لیے لوگ ایسی "عقل" کے گھوڑے دوڑانے کا سوچ رہے تھے جو گروی تھی اور رٹے بازی تک محدود رکھی گئی تھی۔

ایک گروہ شہر کے مشہور نجومی کے پاس پہنچا کہ شاید اس نے کبھی نادیدہ ہاتھ دیکھے ہوں اور ان کے متعلق معلومات مہیا کر سکے۔ نجومی نے آنے والے تمام لوگوں کے ہاتھ دیکھ کر پیشین گوئی کی کہ وہ سب کے سب بیمار ہیں اور ان کے ہاتھ سن ہیں۔ ان ہاتھوں میں سوئیاں چھبنے کا احساس بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ نجومی نے یہ بھی کہا کہ ان سب کے ہاتھوں میں ایسی زنجیر ہے جو دکھائی نہیں دیتی لیکن ان کے ہاتھ اور جیب خالی رکھتی ہے۔ نجومی نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر بھی ہے اور ان کے سن ہاتھوں کی مذہبی سرجری بھی کر سکتا ہے۔ لیکن ایسے ہاتھ جو سر اور پشت پر ہوتے ہیں وہ اس نے زندگی بھر نہیں دیکھے اور نہ ہی یہ ہاتھ کسی کو دکھائی دیتے ہیں کیونکہ یہ شفاف ہاتھ شرعی پردہ پوش ہیں۔

یہ کہہ کر نجومی نے اپنا بکسہ نکالا اور اپنی فیس کے علاوہ بھاشا ڈیم کے لیے بھی خیرات کی درخواست کی تا کہ ملکی معیشت کے متعلق بھی پیشین گوئیوں کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔ مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق زنجیروں سے بندھے، سن ہاتھوں نے اپنی پھٹی جیبیں خالی کر دیں اور امید کے نئے جال سے لپٹے پھونکوں والے بابا کا رخ کیا۔ لیکن بابا نے بتایا کہ اس کی پھونکوں میں اب وہ جان نہیں جس سے ایسے چراغ جلائے جا سکیں جن کی روشنی میں نادیدہ ہاتھوں کی لکیریں پڑھی اور گنی جا سکیں۔ نادیدہ ہاتھ نہ صرف نئے مناظر تخلیق کرتے ہیں بلکہ چراغوں کی لو بڑھانے یا گھٹانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بقول فیض

ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے

مایوس اور ناامید لوگوں کو ایک "شدید سیانے" نے کہانی سنائی کہ کس طرح ایک عورت نے سلیقہ مند بہو کی تلاش میں کوڑے کے بدلے شکر بیچنا شروع کی اور مراد پائی۔ وہ ہر روز شہر میں آواز لگاتی کہ کوڑے کے بدلے شکر لے لو اور سب لڑکیاں سارے گھر کا کوڑا کرکٹ جمع کرکے مفت شکر لے لیتیں۔ ایک لڑکی گھر کے دروازے پر اداس کھڑی تھی۔ عورت نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ شکر نہیں لے گی۔ لیکن لڑکی نے اداسی سےایک چھوٹی سی پڑیا نکالی جس میں تھوڑی سی مٹی تھی اور بتایا کہ اس کے گھر سے بس اتنا ہی کوڑا نکلا ہے۔

عورت خوش ہوگئی اور یوں اس نے سلیقہ مند بہو کی صورت گوہر مراد پایا۔ سیانے نے شہر کے لوگوں کو کوئی ایسا حربہ ایجاد کرنے کا کہا۔ سب ننھے سیانوں نے مختلف اشتہارات کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر روز میڈیا پر ہاتھوں کی صفائی پر لیکچر دیے جاتے۔ مینی کیور کے نت نئے طریقے سکھائے جاتے۔ ہاتھوں پر موجود جراثیم مارنے کے لیے لوشن اور سینیٹائزر متعارف کروائے جاتے لیکن وہ ہاتھ نادیدہ ہی رہے۔ چنو منو کو کیا پتہ کہ نادیدہ ہاتھ کیا ہوتے ہیں۔ وقت پہ کام کی بات سمجھ آنا بھی بہت مشکل مرحلہ ہے۔ چنو منو جیسے محنت کشوں کے لیے زندگی کی گاڑی کھینچنا آسان نہیں۔ ہزاروں نادیدہ ہاتھ ان کی ڈوریں سنبھالے ہوئے ہیں۔

چنو منو صبح سے شام تک مارے مارے پھرتے ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انھیں یوں پھرتے ہوئے ایک صدی ہونے والی ہے۔ سفر کی گرد ان سے یوں لپٹی ہے کہ ان کے جسم مٹیالے ہو چکے ہیں۔ بے رنگ آنکھوں میں سوال تک نہیں۔ بس الجھے جالے چپکے ہوئے ہیں۔ بھولے بھٹکے کوئی خواب اگر آنکھوں میں اترنے لگتا ہے تو ان مضبوط جالوں میں جکڑا جاتا ہے۔ کلیم عاجز نے ان ہاتھوں کے متعلق ہی کہا تھا۔

یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو