Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Koozay Mein Khushk Darya

Koozay Mein Khushk Darya

میں راوی ہوں۔ میں پہلے دریا ہوا کرتا تھا۔ اب سے صرف روایات بیان کرنے والا ہوں۔ حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ صرف سچ اور آنکھوں دیکھی کہوں گا۔ علماء سو کی طرح روایات گھڑنے میں مجھے کوئی دل چسپی ہے اور نہ ہی حوروں کے خواب سنانے میں۔ بس۔۔ جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتا رہوں گا۔۔

کون یقین کرے گا اور کس سے کہوں گا کہ میں پہلے بہتا تھا۔ بہتے بہتے رونے لگا اور پھر آخر میرے اشک بھی خشک ہوتے گئے۔ اشک شوئی کی ضرورت ہی کسے تھی۔ کئی زمانا ساز دورس نگاہوں نے فی مرلہ کے حساب سے میری قیمت اس وقت سے بھی وصول کرنا شروع کر دی تھی جب میں زندہ تھا۔ مجھے اپنی عمر یاد دلانے کی کیا ضرورت ہے کہ میرا ذکر ہندو مت کی ویدوں میں بھی ملتا ہے لیکن اس وقت میرا نام راوی نہیں تھا بلکہ ریگ ویدا کے حوالے سے بھگت کبھی مجھے اراوتی اور کبھی پروشنی کے نام سے پکارتے تھے۔

میری پیدائش ضلع کانگڑا میں درہ روتنگ میں ہوئی۔ لاہور شہر کی بنیاد میرے اسی کنارے پر رکھی گئی جس سے اب طوطا چشموں نےکنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ مجھے تو اب یہ بھی یاد نہیں کہ بہتے پانی پر گدھ کب سے منڈلا رہے تھے نہ ہی اس کا ذکر ہے۔ مت پوچھیے احوال دل! میں نے کیا کیا نہیں دیکھا جین مت، ہندو مت، اسلامی بادشاہتیں اور پھر گورا راج۔ سب سے زیادہ پذیرائی مجھے مغلوں کے دور میں ملی۔ جب میں لاہور شہر کے شمال میں واقع شاہی قلعے کے عقب میں بہتا تھا۔ کیا لطف تھا زندگانی کا۔ بس میرے پاس تخت نہیں تھا۔ باقی سب وسائل تھے۔ بارہ دری میں چاند نکلتے تھے اور ستارے ٹکٹکی باندھے محو تماشا ہوتے تھے۔ میں اپنی مستی میں تھا۔ جب جی چاہتا لہراتا ہوا کنارے کی بستیاں روند دیتا۔ شاید یہ غرور مجھے لے ڈوبا۔ عام خیال ہے کہ دریا یا تو کسی دوسرے دریا سے جا ملتا ہے۔ یا کسی بحر یا بحیرے میں جاگرتا ہے۔ بقول شاعر

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

لیکن میں تو پیر فرتوت رہا جو نہ دریا رہا اور نہ ہی کسی سمندر میں اتر سکا۔ شاعر نے پتہ نہیں کس کیفیت میں کہا تھا:

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کئی دریا بذات خود مستقل بھی ہوتے ہیں اور معاون بھی۔ یعنی ایک دریا دوسرے دریا میں جا گرے تو معاون کہلاتا ہے۔

لیکن میں نہ تو ہیرو بن سکا نہ ہی ولن کا لبادہ اوڑھ سکا۔ قطرہ نیساں کی طرح میری چیخ دبی دبی رہی۔ نقار خانے میں طوطی کی سنتا ہی کون ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ مرنے سے پہلے میری چیخیں دلدوز تھیں۔ میری آہیں، میری معذوری، میرے چیخ پکار گویا سب ماتم رائیگاں رہا۔ یہ مصرع مجھ پر صادق ہے کہ عمر بھر کون حسیں، کون جواں رہتا ہے۔ ہائے! کوئی میکدے سے میرا عروج اٹھاکر لاؤ۔ فی زمانا بحث سن کر مجھے احساس ہوا ہے کہ شاید میں فائلر ہوتا تو کسی سمندر میں ہجرت کر سکتا تھا۔ میں فائلر ہوتا تو میرا چپکے سے یوں قتل نہ کیا جاتا۔ مجھے یقین ہے کہ سارے مصائب نان فائلر ہونے کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں۔

ساتھی دریاؤں کو میری نصیحت ہے کہ پلیز فائلر بن جائیں ورنہ کوئی پڑھا لکھا دشمن آپ پہ ڈیم بنا لے گا اور ہم اپنی پرائمری سکول بیچتے رہیں گے۔ دل میں ایک کمینہ سا خیال یہ بھی آتا ہے کہ اپنے کنارے مرادیں مانگنے والوں اور والیوں کی ویڈیوز لیک کرکے بھی ارباب اختیار کی توجہ کھینچی جا سکتی تھی۔ پھر سوچتا ہوں ارباب اختیار کی تو خود آئے روز آڈیوز اور ویڈیوز لیک کا کھاتا کھلا ہے۔ شاہ و وزیر ہر طرح کی آڈیوز / ویڈیوز پر بلیک میل ہو رہے ہوں تو مرتے دریا پر کون توجہ دے گا۔ مجھے تو وہ قلندر بھی نہ مل سکا جس کی بات مجھے پھر سے پانی پانی کر دیتی۔

کاش کہانی کا وہ دانا کوا کوئی جادوئی کنکریاں لاتا اور پانی کی سطح اتنی بلند کر دیتا کہ شاعر اپنے محبوب کو پکارتے کہ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیے۔ پھر سوچتا ہوں کہ خاموشی یا شور مچا کر بہنے والے آخرش بجھ ہی جاتے ہیں۔ چیخ و پکار اور اپنی بقا کی جدوجہد کرنے والے شہید بھی ہوئے۔ پھانسی بھی لگائے گئے اور جلا وطنی کے عذاب بھی انھوں نے خوب جھیلے۔ یہ علم نہیں کہ وہ فائلر تھے یا نان فائلر۔ مجھے تو نان فائلر قرار دے کر یہ ٹیگ لگا دیا گیا ہے

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے

دنیا کی خوب صورت آبشاریں ہوں یا دل کش دریا۔ سیاح جوق در جوق ان کو دیکھنے بھی جاتے ہیں اور دنیا کو اس طرف متوجہ بھی کرتے ہیں۔ مجھ ضعیف راوی کو عرصہ دراز سے ضعیف روایت کی طرح فراموش قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ حالانکہ علماء سو جھوٹی روایات کے فتوی لگا کر خوب عیش کر رہے ہیں۔ دوسروں کے گلے کاٹنے اور دھوکا دینے والے بھی آج یہ کہتے ہیں کہ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے پیار ہے۔ کسی کی کشتی ڈوب جائے یا پار لگے اسے کوئی غرض نہیں۔ لیکن دریا کے بلکتے آنسو کسی کو نظر نہیں آتے۔

میرے کنارے ساس بہو کی دشمنیاں پلتی رہیں اور محبوب قدموں میں روندے گئے۔ گمان ہے کوئی وظیفہ الٹا کر محبوب کی جگہ میرا نام شامل کیا گیا۔ محبوب تو بچ نکلا اور میری سوئیاں نکالنے والا اب کوئی نہیں۔ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔ نہ ہی بدو بدی اور نہ اپنی خواہش سے۔