Tuesday, 17 September 2024
  1.  Home/
  2. Saadia Bashir/
  3. Kursi Aur Gadha

Kursi Aur Gadha

ذرا سی مشابہت پر کدو کو تربوز اور کرکس کو ولی ثابت کیا جانا مشکل نہیں، تو گدھے اور کرسی میں بھی قدر مشترک یعنی چار ٹانگیں موجود ہیں۔ یہ مماثلت نظر انداز کرنے کے قابل نہیں، یعنی بازی گر کھلا دھوکہ دے سکتے ہیں۔ یوں بظاہر تو اپوزیشن اور حکومتی کرسیوں کا زاویہ بھی بالکل الٹ دکھائی دیتا ہے، اگرچہ بباطن اور درون خانہ ان کے رابطے صمد بانڈ سے بھی زیادہ مضبوط اور دیرپا ہوتے ہیں۔ بنیاد میں لکڑی جو بھی استعمال کی جائے، مفادات کے لیے شیر و شکر نظر آتی ہیں۔ کرسی یا گدی نشین ہونے کے لیے، قوم کو گدھا تصور کر کے آنکھوں میں دھول جھوکنا ضروری عمل ہے۔

کرامات کی یہ دھول چاٹتے، گدھا بیکار میں عمر گزار دیتا ہے۔ بجٹ کی خوش فہمیاں گدھے کی صحت پر اچھا اثر ڈالتی ہیں۔ اور اس کی زندگی "نہ پاپ، نہ پن، بیانات پہ سر دھن " کی صورت ناچتی رہتی ہے۔ کرسی کے لیے لڑے جانے والے الیکشن میں، کروڑوں خرچ کرنے کا مقصد گدھے کو مزید گدھا بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے گدھے کی آرتی اتار کر، مالا کرسی کو ہی پہنائی جاتی ہے۔ کرسی پر بیٹھنے کے لیے ایک ٹانگ پر کھڑا ہونے والے جیت کے بعد پانچ سال تک، گدھے کو دولتیاں مار مار کریہ یقین دلاتے ہیں کہ، اصل گدھا وہی ہے اور ضروریات کے کارڈ وصولنے کے لیے اسے ہی قطار میں کھڑا ہونا ہے۔

کرسی کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں، اب مماثلت کا یہ کیا جواز کہ گدھے کی بھی تو چار ٹانگیں ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جتنی بھی سازشیں ہوئی ہیں وہ کرسی کے لیے کی گئیں، گدھے کے لیےکون سازش کرتا اور اس کی ضرورت بھی کیا تھی؟ گدھا نہ محبوب ہو سکتا ہے نہ رقیب، نہ طبیب اور نہ ہی حبیب۔ گدھے کی زندگی میں رنگ بھرنے کے لیے اس پر صرف بوجھ ڈھویا جاتا ہے۔ کرسی کی خاطر تو لوگ کپڑے تک اتار کر کھڑا ہونے کو تیار ہیں۔ کرسی کے لیے کتنے ہی لالچ دیے جاتے ہیں۔ کرسی کو پالش کروا کر۔ نت نئے کور، ڈیزائن اور رنگ کی تبدیلی سے اسے مزید مضبوط بنایا جاتا ہے۔

جبکہ گدھے کا رنگ یا نسل جو بھی ہو، اس کی زندگی کتے سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ عمر دراز کے دن چار ہوں یا چار سو اس کی زندگی کرسی کی ناز برداری میں ہی گزر جاتی ہے، کوئی اس کی سوئی ہوئی دم نہیں ہلا سکتا۔ کرسیاں مضبوط رکھنے کے لیے اس پر اتنا بوجھ لادا جاتا ہے کہ، وہ غیرت و خوداری کا بوجھ نہیں ڈھو سکتا۔ instantقانون سازی کرسی کے لیے کی جاتی ہے، توقیر کرسی کی ہوتی ہے، انصاف کرسی کو ملتا ہے۔ البتہ انصاف کو ذبح کرنے کے لیے برقی کرسی ضرور استعمال کی جاتی ہے۔ گدھوں پر صرف ٹیکس سازی کی جاتی ہے۔ منی بجٹ اور اسپیشل منی بجٹ کے نام پر اتنا بوجھ لادا جاتا ہے، جو سات نسلوں تک سفر کرتا ہے۔

اسے اس بوجھ کو ڈھوتے ہوئے مرنے کی اجازت تو مل جاتی ہے، لیکن گرنے کی قطعی اجازت نہیں ملتی اور اسے بدشگونی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ الاؤنس کے خوش آئیند لالی پاپ میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ، وہ گدھے کی کمزوری رفع کر سکے۔ کرسی کی پہنچ بڑی دور تک ہے۔" پیسے کو پیسہ کھینچے ہے کر کر لمبے ہاتھ" کی طرح کرسی کو بھی کرسی کھنچتی ہے۔ جب کہ گدھے نم آنکھوں سے ایک دوسرے کے بوجھ کو دیکھتے ہیں اور ہر بار نظر چرا لیتے ہیں۔ گدھے کی دن رات کی جگالی ان کمیٹیوں کی طرح بے سود رہتی ہے، جو نکلنے سے پہلے ہی ٹوٹ جاتی ہیں، یا پھر ایسی فائلوں کی طرح جن پر بندھا سرخ فیتہ زندگی بھر نہیں کھلتا۔

گدھے اگر کرسی پر بیٹھ جائیں، تو کرسی کی جگالی بھونڈے بیانات اگلتی ہے۔ یہ بیانات ہی ہیں جن سے یقین ہوتا ہے کہ، کس کرسی پر گدھا بیٹھا ہے؟ اور کرسی کی طاقت کا سہارا لے کر وہ اپنے حصے کا بوجھ ڈھونے سے انکاری ہے۔ سر پیر سے عاری ڈھینچوں ڈھینچوں کے بیانات، تازیانے سے زیادہ اذیت ناک ہیں۔ اتحاد کی برکت سے، نا بلد گدھوں کا بیانیہ کبھی ایک نہیں ہوتا۔ چالاک کرسی ان کا بیانیہ تقسیم کروا دیتی ہے۔ جب کہ کرسی کا بیانیہ صدیوں سے ایک ہی ہے۔ یعنی اپنی حفاظت اور اپنے معتقدین میں مزید گدھے شامل کرنا۔

عجائب گھروں میں گدھے کا مجسمہ نہیں رکھا جاتا۔ گدھے میں مجسمہ بننے کی اہلیت ہی نہیں۔ ہاں مگر جن کا منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھایا جاناچاہیے، ان کے مجسمے نہ صرف بنائے جاتے ہیں بلکہ خوب بکتے ہیں الفاظ اور ہیش ٹیگ کی صورت، اندھی عقیدت کے مجسمے بنا کر سوشل میڈیا پر ان کی پوجا کروائی جاتی ہے۔ کرسی نشین خود ہی اپنے مجسمے بنانے کے اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ، مجسمہ سازوں کی دکانیں بند ہو گئی ہیں۔ وہ اپنے اوزار لیے چپ چاپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ایسی کتنی ہی پر ابہام تصاویر بھی جاری کی جاتی ہیں، جن میں نام نہ ہونے سے کرسی پر بھی گدھے کا ہی گمان گزرتا ہے۔

اس ذرا سی مماثلت سے گدھے اور کرسی کو پیر بھائی تو نہیں بنایا جا سکتا؟ گدھے کے صرف پاؤں ہوتے ہیں اسی لیے وہ اب تک گدھا ہے، جبکہ کرسی کے دو ہاتھ بھی ہوتے ہیں جسے کرسی کے بازو کہا جاتا ہے۔ یہ بازو بہت مضبوط اور لمبے ہوتے ہیں۔ کئی کرسیاں ایسی بھی ہیں جن کا صرف ایک ہاتھ ہے، لیکن یہ ایک ہاتھ بھی بہت بھاری ہے۔ کرسی کا یہ ہاتھ کرسی نشیں کو تقویت دیتا ہے کہ وہ کرسی کا مالک ہے۔ کرسی کے اس ہاتھ اور بازو پر کتنے ہی محاورے بھی بنائے گئے ہیں۔ مثلا ََ

ہاتھ گناہ کرے گا، لیکن سر جواب دے گا۔

جس چیز میں روح جھوٹ بولتی ہے، اس کے ساتھ ہاتھ جوڑ جائیں گے۔

ہاتھوں کی قیمت آستین کے لیے نہیں بلکہ کاروبار کے لیے ہے۔

بازو لمبے ہیں (ایک اور ورژن کے مطابق، بال لمبے ہیں)، اور دماغ چھوٹا ہے۔

کرسی کے ہاتھوں میں لکیریں نہیں ہوتیں لیکن کرسی پر بیٹھنے والا دوسروں کی لکیریں لکھنے مٹانے میں لگا رہتا ہے، تاوقتی کہ وقت اس پر لکیر نہ پھیر دے۔ اگر کبھی کوئی گدھا کسی بڑی کرسی پر بیٹھ جائے، تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ گھبرائے بغیر سب خود بخود گدھا بن جائیں۔ گدھے کی طاقت اس کی نا طاقتی ہے، جبکہ کرسی کی اصل طاقت اس کی پشت یا بیک ہوتی ہے۔ یہ پشت خار پشت سے مشابہ ہوتی ہے۔

بھلے گدھا لوٹا کہے یا سیلیکٹڈ، لیکن کوئی مائی کا لال کرسی کو ہلا نہیں سکتا۔ اس میں خار پشت کا کافی دخل ہے۔ گدھے کی پشت پر بھی گدھا ہی ہوتا ہے۔ تجربات سے معلوم ہوا کہ جس کرسی کی پشت مضبوط ہو وہی جیتنے کی صلاحیت رکھتی ہے، بالفاظ دیگر اسے یہ صلاحیت فراہم کی جاتی ہے۔ اپنے وزن سے زیادہ بوجھ لادے گدھے اکثر گر جاتے ہیں، لیکن طوعاََکرہاََ پھر سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ رینگ رینگ کر زندگی جینے والے یہ گدھے، کبھی کسی کرسی نہیں بیٹھ سکتے۔

البتہ ناپے ہوئے چال کے لیے، گدھا کسی ریس ہارس سے بھی تیز دوڑنے کے قابل ہے۔ دراصل گدھے کی پشت پر وقت کی لومڑی ہی، اس کا وزن طے کر کے اسے گدھا رہنے پر اکساتی ہے۔ یہ لومڑی ہی ہے، جو فلسفیانہ مو شگافیوں سے کرسی کو گدھا اور گدھے کو کرسی پر بٹھا کر پیر وقت اور ولی ثابت کر سکتی ہے، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔