Thursday, 28 November 2024
    1.  Home/
    2. Guest/
    3. Virtual Mehboob

    Virtual Mehboob

    کمپیوٹنگ میں، ورچوئل کی اصطلاح سے مراد کسی حقیقی چیز کا ڈیجیٹل طور پر نقل کیا گیا ورژن ہے، چاہے وہ مشین ہو، سوئچ ہو، میموری ہو یا حقیقت بھی۔ یہ حقیقی سے ان معانی میں ممتاز ہے کہ اس میں مطلق جسمانی شکل کا فقدان ہے۔ تاہم عملی طور پر یہ کم حقیقی نہیں ہے۔

    ادب میں یہ کام صدیوں پہلے سے شروع ہے۔ صنعت مبالغہ ہو یا تعلی۔ یقین گمان سے یوں گلے ملتا ہے کہ ہاتھ پکڑے بھی نہ بنے اور چھوڑے بھی نہ بنے۔ ورچوئل ریئلیٹی جدید ٹیکنالوجی کا شعبدہ ہے جس کی بنیاد سوچ کی کرشمہ سازی پر رکھی ہے۔ کمپیوٹر سوفٹ ویئر اور کچھ ڈیوائسز کی مدد سے تین جہتی منظر کی ایسی مثلث تیار کی جاتی ہے جس پر دیکھنے والے کو حقیقت اور نقل میں فرق کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس میں دماغ اور دیگر حواس کو دھوکہ دینے کے لیے ایسا مواد مہیا کیا جاتا ہے جو انسان کو اسی ماحول میں لے جاتا ہے۔

    وہ ویت نام کے چہرے اپنے اردگرد چلتے پھرتے دیکھتا ہے۔ اسے سائے بھی دکھائی دیتے ہیں اور یہ سائے اسے اپنی بد نصیبی بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اندھادھند مواد اور ویڈیوز اسے بے وقوف اور شعور سے محروم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہر ویڈیو، ہر تصویردیکھنے والے کو اپنی محرومی کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ جنھیں وہ اپنے من پسند واقعات پر چسپاں کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتا۔ شاعر تو یہ کہتا ہے کہ

    رخ روشن کے آگے شمع رکھ کے وہ یہ کہتے ہیں

    ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

    اب بھلا پروانے کو فلٹر زدہ رخ روشن سے کیا مطلب؟ اسے تو شمع کی تپش پیاری ہے۔ اسے تو جلنے سے مطلب ہے۔ تڑپنے پھڑکنے کی توفیق پروانے کو میسر ہی نہیں۔ جذبات کی پٹی باندھے شاعر حضرات نے تو ایسے ایسے ورچوئل محبوب تخلیق کیے ہیں کہ ایک دنیا اس تخلیق کو اپنا آئیڈیل تسلیم کرنے لگی۔ آئیڈیل محبوب کی تلاش میں زندگیاں تباہ ہونے لگیں۔ کمر باریک سے باریک تر ہونے لگی اور شاعرانہ تسلی ہے کہ بہرحال وہ معدوم نہیں ہے۔ شاعر یہ بھی کہتا ہے۔ نظر کسی کو وہ موئے کمر نہیں آتا۔

    برنگ تار نظر ہے نظر نہیں آتا ورچوئل محبوب کی نزاکتوں پر فلمیں بنائی گئی اورچ دیوان تخلیق کیے گئے ہیں۔ امیر مینائی کہتے ہیں۔

    خواب میں آنکھیں جو تلووں سے ملیں

    بولے اف اف پاؤں میرا چھل گیا

    محبوب کے حسن پر چاند نثار ہوتا ہے۔ محبوب کا چہرہ دیکھ کر پھول مرجھا جاتے ہیں۔ محبوب کا دل پتھر کا ہوتا ہے لیکن پھر بھی خون کی گردش صاف دکھائی دیتی ہے۔ محبوب کی پلکوں سے چاقو، چھریاں اور خنجر تیز کیے جاتے ہیں۔ اففففف محبوب نا ہوا چھلاوا ہوگیا! جسے قرار نہیں، جو ابھی کہیں ہو اور ابھی کہیں، پارے کی سی خاصیت رکھنے والا جادو جو جھلک دکھا کر فوراَ غائب ہو جائے۔

    پری تھی کوئی چھلاوا تھی یا جوانی تھی

    کہاں یہ ہوگئی چمپت جھلک دکھا کے

    مجھے ذہنی اور رحجانی گیمز کی طرح جس میں من پسند نتائج ایک کلک سے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ پرانے ورچوئل محبوب پر جدید ورچوئیلیٹی کا رنگ چڑھا کر سب حقیقی کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے خوبصورت نظر آنے کے وہ دروازے کھول دیے ہیں جو پہلے بند تھے اور فلٹرز نے اس خوب صورتی کو ہر خاص و عام کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔ فلٹرز نے آن لائن اور حقیقی خوب صورتی کے معیار تبدیل کر دیے ہیں۔

    حقیقی زندگی کی خوبصورتی کے رجحانات کی پیروی کرنے اور آن لائن فلٹرز لگانے کے درمیان مصنوعی مقابلہ سازی اور وقت کی بچت کا تصور سر فہرست ہے۔ یہ فلٹرز ورچوئل محبوب کے ہتھیار ہیں۔ کمرہ کو کمر بنانا ذرا بھی مشکل نہیں رہا۔ سانولے یا مٹیالے رنگ کو دودھ بالائی جیسی رنگت دینے میں کوئی جمع خرچ نہیں۔ مٹکے جیسے پیٹ تو ندارد ہوئے۔ کور چڑھا کر فلٹر لگائیے اور روپے کی چیز ہزاروں میں بیچیے۔ ڈیجیٹل اور آن لائن کی اصطلاح سب کچھ بہائے لیے جا رہی ہے۔ اس ورچوئیلٹی کو حقیقت بنانے کے لیے ہمیں آن لائن ہی رہنا ہوگا۔

    "ٹین" نامی ایک فلٹر میں کوئی بھی شخص بچہ بن سکتا ہے اور بچہ بوڑھا شخص دکھ سکتا ہے۔ یعنی زمان و مکاں کی کوئی رکاوٹ نہیں۔ اے آئی ایپ انسانی دماغ کو ایسے شکنجے میں جکڑ سکتی ہے جہاں ورچوئیل محبوب کی ریل پیل ہے، غالب کا محبوب تراشیے یا میر کے محبوب کا سنگھار کیجیے، ولی کے نشاطیہ محبوب کو جی بھر کر دیکھیے یا پھر داغ کے محبوب کے حسن کو افزوں کیجیے۔ کوئی رکاوٹ ہے نہ قلت۔ خیال کے یاقوت و نگیں ایک سیکنڈ میں آپ کی دلی تسکین کے لیے ہاتھ باندھے موجود۔

    قلوپطرہ کے ہوش ربا حسن اور قیامت خیز جوانی کے ایپ اب امیر و غریب کا فرق نہیں جانتے۔ اب کسی انطونی کو جنگ و جدل کی ضرورت نہیں۔ قلوپطرہ کے سامنے قلوپطرہ آئینہ کی مانند رکھی جا سکتی ہے۔ گھنٹوں ورچوئل محبوب سے گلے شکوے کیجیے اور من پسند مرہم پائیے۔ اسے ٹائم مشین سمجھیں یا جناتی خاصیت۔ جو شعبدہ باز بھی ہو اور جال بننا جانتا ہو۔ جہاں چاہے نظروں کے سامنے پردہ تان دے۔ اصل میں یہ ہڈیوں کے فاسفورس یا گیس کے ہوا میں آنے سے پیدا ہونے والی روشنی ہے جسے جاہل لوگ بھوت یا اگیا نیتال سمجھتے ہیں یا پھر بھرت کے ساتھ تلوار جھکانے اور اس کی نظر ہٹانے کا شعبدہ ہے جو نظروں کے سامنے طلسم باندھ کر چھل و فریب دے کر منظر بدل دیتا ہے اور پردے کے پیچھے کوئی اورحقیقت منتظر ہوتی ہے۔ یہ توہم کا کارخانہ اعتبار کے دلاسے دیتا رہتا ہے اور ہم چلاتے رہیں گے

    "جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا "۔۔

    جدید دور اس گومگو کی کیفیت ہے جس میں چاند پر بڑھیا رقص کرتی دکھائی دیتی ہے اور ہم ورچوئل محبوب کی تلاش میں زمین سے نظریں چرائے آسمان پر رنگ بھرنے کی کوششوں میں ہلکان ہو رہے ہیں۔