Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Ye Ik Shajar Ke Jis Pe Na Kanta Na Phool Hai

Ye Ik Shajar Ke Jis Pe Na Kanta Na Phool Hai

شہر کے وسط میں ایستادہ مضبوط اور گھنے درخت کو اکھاڑ کر شہر کے ایک کنارے گاڑ دیا گیا تھا۔ یہ اکھاڑ پچھاڑ نئی بات نہ تھی۔ درخت سے خالی ہونے والے گڑھے میں ایک دل کش مصنوعی درخت لگا دیا گیا۔ جس کی سجاوٹ میں استعمال ہونے والی چیزوں کا ذکر تاریخ میں صرف "اندھا یقین" ہے۔

ایسی بہت سی نا پروردہ صورتوں میں مقام کی تبدیلی ہی اصل درختوں کا مقدر ہوا کرتی ہے۔ رہ گئے پتے! تو انھیں صرف درخت درکار تھا۔ ہر رنگ و بناوٹ کے پتے شہد کی مکھیوں کی طرح درخت سے لپٹ لپٹ جاتے۔ اب بھی ایسا ہی ہوا۔ درخت کی شاخیں کم زور لیکن گھنی تھیں۔ ان شاخوں کو پتوں نے کچھ اس طرح ڈھانپ رکھا تھا کہ درخت پر صرف پتے ہی نظر آتے۔ سبز، زرد، خشک چرمرائے ہوئے پتے، نئی کونپلوں سے جڑے ہلکے سبز پتے۔

جھریوں سے اٹا اٹ زردی مائل سبز پتے۔ ایسے پتے بھی تھے جن کی صرف رگیں نظر آتیں تھیں۔ شہد کے چھتے لگانے اور اتارنے والے ہاتھ کبھی کسی کو نظر نہ آتے۔ دور و نزدیک سے شہر کے لوگ بلا ناغہ یہاں سے گزرتے اور ایک سرسری نظر درخت پر بھی ڈال لیتے۔ ایسی بجھی اور سرسری نظریں! جن سے درخت کے پتوں کو بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔ شہر میں ہر جلسہ اسی درخت کے سائے میں منعقد ہوتا تھا۔

درخت کے پتوں کو اس سے بھی کوئی غرض نہ تھی اور نہ ہی شہر کے لوگوں کو پتوں سے دل چسپی تھی۔ ان جلسوں میں پتوں کی شرکت ریاضی کے کمپیوٹرائزڈ فارمولوں کی طرح طے شدہ تھی۔ شدید اور بے ہنگم ہلڑ بازی میں درخت کے پتے ہمیشہ روندے جاتے لیکن شاخوں کی کم زوری چھپی رہتی۔ یہ پتے ان کم زور شاخوں کو ڈھانپنے پر ہی مامور تھے۔ کوئی بھی موسم ان پر بار نہ گزرتا۔ بہ زبان خامشی وہ پکارتے رہتے کہ انھیں پرورش لوح و قلم کی اجازت ہے اور وہ زندگی بھر صرف یہ ہی کرتے رہیں گے۔

دل پہ گزرنے والے معاملات بتانے کا کبھی موقع ہی نہ آتا۔ نہ ہی سنگدل محبوب کو معاملات دل سے کوئی غرض تھی۔ محبوب "دل اپنا اور پریت پرائی" کا قائل تھا اور ہر بدلتے موسم میں اسی کا اعادہ کرتا۔ پتوں کی حالت زار سے بے نیاز محبوب بھی تو اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ بند قبا کی طرح ایسے معاملات جب جب کھلتے۔ بہت سوں کے ایمان ڈگمگا جاتے اور بہت سے ایمان جھولی میں ڈالے دل و جان وارنے پر تیار رہتے لیکن ان سب کو پاٹھ پڑھانے پر مامور چوغہ بردار انھیں یقین دلاتے تھے کہ جام جم کی مارکیٹ کریش کر گئی ہے اور جام سفال اب جام جم سے بہتر ہے جو بازار سے بے قیمت خریدا جا سکتا ہے۔

"خریدنے" پر خصوصی زور دیا جاتا تھا اور حلق سے خصوصی آواز بھی نکالی جاتی۔ اسی پر خلقت جمود کے نئے کپڑے پہن کر "دوڑو زمانا چال قیامت کی چل گیا" کا نعرہ لگاتی عالم قیام میں ہی دنیا کا سفر طے کر آتی۔ پتوں کے حلق سے ہر شے اگلوانا "اگلوں" کو بھی خوب آتا تھا۔ یہ فن چوغہ برداروں تک بڑی حفاظت اور رازداری سے پہنچا تھا۔ فن کوئی محبوب کا خط تھوڑا ہی تھا جو خرد برد ہو جاتا۔ یا پھر جواب جانتے ہوئے بھی عاشق خط پہ خط ہی لکھتا رہتا۔ ویسے بھی اب تو ویڈیوز کا دور تھا۔

اس سیلاب پر بند باندھنے کے لیے ڈیم موجود ہی نہیں تھے نہ ہی اس کی کوئی خاص ضرورت سمجھی جاتی تھی۔ آدھا شہر تو ویسے ہی بہتی نہر میں ڈبکیاں لگا رہا تھا اور آدھا خشکی سے مچھلیاں پکڑنے کی خواہش میں ہلکان ہو رہا تھا۔ البتہ جب کبھی ایسے معاملات دل سنگین ہو جاتے تو محبوب کو درخت کی کوئی نہ کوئی شاخ بیچنا پڑتی۔ پتوں کو جھاڑ کر وہ شاخ مصنوعی درخت میں انتہائی مہارت اور خوب صورتی سے لگا دی جاتی۔

سٹیل مل سے پی آئی اے کی طرح درخت کی ہر شاخ "شاخ زار" تھی لیکن مصنوعی درخت سے جڑتے ہی اس پر پرندے چہچہاتے لگتے تھے اور وہ خوشی سے نہاری جاتی۔ ہر شاخ کے مقدر میں یہ ناز عروساں کہاں تھا۔ لیکن جلد یا بدیر حالات کی پیشین گوئیوں سے صرف نظر دشوار ہوا جاتا تھا۔ پتوں کی سرگوشیاں البتہ جاری رہتیں لیکن تاریخ میں ایسی سرگوشیوں کا ذکر ممنوع اور "پاپ" قرار پایا۔

درخت کی جڑوں میں دم کیا گئے پانی اور افیون کی گولیوں نے تنے اور شاخوں کے کھوکھلے پن میں خوب اضافہ کیا تھا۔ اب تک وہ ماہِر نباتات جیمز وانگ کی اس تحقیق سے بے نیاز ہے کہ پودے نہ صرف اپنے اردگرد کی چیزوں کو سونگھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ دوسرے پودوں کو بھی خطرے سے خبردار کرنے، مواصلات کے پیچیدہ نظام کو بروئے کار لانے، فیصلہ کرنے اور اطلاعات کو یاد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

درخت کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے لیکن اپنی جگہ پر جمے رہنے کو بقا سمجھتا ہے۔ اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا اپنا ذہن بھی ہے جس سے وہ جوتیاں چومنے کے بجائے خیرات میں دیے گئے شعور کا تجزیہ کر سکتا ہے۔ لیکن یہ درخت آئینہ ایام سے بے خبر اپنا جوہر ٹک ٹاک کی پھونکوں کا منتظر ہے۔