سمجھ نہیں آتی کہ اس حکومت کے سرکردہ رہنمائوں نے بلند بانگ دعوئوں پر مبنی بیانات دینے کا کوئی اضافی کورس کر رکھا ہے کہ آئے روز اہم حکومتی شخصیات کی جانب سے ایسے بیانات جاری ہوتے ہیں کہ جنہیں سن کر عوام بس بغلیں جھانکتے رہ جاتے ہیں۔
سامنے کی حقیقتیں حکمرانوں کو دکھائی نہیں دیتیں مگر تقریروں اور بیانات میں دور کی کوڑی لاتے ہیں جو ہم جیسے عام انسانوں کو سمجھ ہی نہیں آتی۔ تازہ ترین ارشاد صدر مملکت جناب عارف علوی کی جانب سے آیا ہے فرماتے ہیں، پاکستان نشاۃ ثانیہ کی طرف جا رہا ہے، ریاست مدینہ کا تصور پیغام اقبال کے مطابق ہے۔ اس معاملے میں کسی کو طنز نہیں کرنا چاہیے۔ اسی پیرائے میں ایک اور خبر بھی یاد آتی ہے جس کا موضوع میرے نزدیک تو ایک الگ کالم کا متقاضی ہے لیکن اس کو بھی ریاست مدینہ قائم کرنے کے دعوئوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو پھر صدر صاحب کے بیانات کے ساتھ اس کا تذکرہ کرنا بنتا ہے۔
چند روز پہلے بیک پیج پر دو کالمی خبر تھی۔ ریاست مدینہ کے قیام کی جانب ایک اور قدم۔ ماڈل مساجد قائم کریں گے۔
پہلی نظر میں خبر پڑھی تو ذہن میں فوری یہ خیال آیا کہ ماڈل مسجد کے قیام کا مطلب یہی ہو گا کہ مسجد جو اللہ کا گھر ہے۔ اسے کمیونٹی کی ویلفیئر سے جوڑ کر جوڑ دیا جائے۔ اللہ کے گھر کو پانچ وقت نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایسے مرکز میں بدل دیا جائے جہاں سے معاشرے کے محروم طبقوں کے لئے خیر اور خیرات کا سلسلہ بھی شروع ہو سکے۔ بالکل ایسے ہی جیسی ماڈل مسجد کی مثال، حال ہی میں کورونائی حالات میں استنبول کی ایک مسجد نے قائم کی۔ وبائی پھیلائو کے انتہائی دنوں میں جب مساجد میں نماز پڑھنے کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لئے روک دیا گیا تو استنبول کی ایک مسجد کے 33سالہ امام کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ مسجد اللہ کا گھر ہے ایک ایسی جگہ معاشرے کا امیر اور غریب طبقہ بنا کسی حیل و حجت کے آ سکتا ہے سو مسجد کو ان دونوں طبقوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کورونا کے بدترین اثرات میں سینکڑوں افراد اپنے روزگار سے محروم ہو گئے تھے یہ ایسے افراد تھے جو کسی کو اپنی مجبوری بتا کر مانگنے کی سکت بھی نہیں رکھتے تھے۔ استنبول کی اس مسجد کے امام نے مسجد کی دیواروں کے ساتھ ریکس رکھوا دیے اور علاقے کے مخیر افراد کی مدد سے راشن دوسری اشیائے ضروریہ ان ریکس پر رکھوا دیں۔ ایک رجسٹر مسجد میں ایسا رکھوایا جس میں اس علاقے کے ضرورت مند افراد نے اپنے نام اور اپنی ضرورت کی چیزوں کا اندراج کروایا۔ ان فہرستوں کی روشنی میں مطلوبہ سامان ڈونیشن والے ریکس پر رکھوا دیاگیا۔
رسول پاکؐ کی حیات طیبہ سے بھی یہی درس ملتا ہے کہ مسجد صرف نماز کی ادائیگی کی جگہ نہیں تھی بلکہ یہ ایک ایسا مرکز تھا جہاں معاشرے کے افراد معاشرت، تہذیب، اخلاق باہمی معاملات سکھیتے تھے۔ نبی پاکؐ نے زمانہ مبارک میں مسجد کے صحن میں عدالتی فیصلے ہی ہو جاتے۔ معاشی معاملات بھی سدھارے، جاتے معاشرت اور باہمی تعلقات کے حوالے سے بھی مشاورت ہوتی۔ مسائل کا حل نکالا جاتا۔ ایک اسلامی معاشرے میں مسجد ایک ایسی مرکزی جگہ ہے جو اس علاقے کے امیر غریب کو اللہ کے گھر سے جوڑ کر ان کے درمیان تعلق کا ایک پل بناتی ہے تاکہ اللہ کی خاطر اور خیر کے لئے معاشرے کا خوشحال طبقہ اس معاشرے کے محروم اور ضرورت مند افراد سے غافل نہ رہے۔
بات طویل ہو گئی لیکن میں نے خبر میں جب یہ پڑھا کہ ماڈل مساجد بنائی جائیں گی تو میرے ذھن میں مسجد کا یہی روشن تصور آیا۔ خبر کے مندرجات مگر اور ہی کہانی سنا رہے تھے۔ جنہیں پڑھ کر مجھے ایسی سطحی سوچ پر افسوس ہوا کیونکہ ماڈل مسجد بنانے کی ساری تان گنبدوں محرابوں اور مسجد کی تزئین و آرائش پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ کروڑوں روپے مسجد کی تعمیر اور تزئین و آرائش گنبدوں اور محراب پر لگا کر اسے شادیوں کے فوٹو سیشن کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی باقاعدہ بھاری فیس لی جا تی ہےآپ کا کیا خیال ہے کبھی کوئی غریب شہر ان مسجد میں گھسنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک تہی کیسہ شخص کسی بڑے شاپنگ مال میں جانے سے ڈرتا اور گھبراتا ہے کیا یہ اسلام میں مسجد کا یہ تصور ہے؟ یہی مسلم دنیا کا المیہ ہے امیر عرب ملکوں میں مسجدوں پر خطیر رقم خرچ کر کے اسلام کی نام نہاد خدمت کی جاتی ہے جبکہ عرب مسلم رہنمائوں کے کردار اور آپس میں نفاق کی صورت حال دیکھیں تو نوحہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔
سنا ہے یمن کی ایک مسجد ہے Alsalah، 2008ء میں جس پر 60ملین ڈالر کی خطیر رقم لگا کر تعمیر مکمل کی گئی۔ اس شاندار تعمیراتی شاہکار کے سائے میں یمن کے 40فیصد بچے بوڑھے نوجوان اور عورتیں قحط زدہ زندگی گزار رہے ہیں۔ یمن کی 40فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اپنے ملک کا بھی حال دیکھ لیں، غربت بھوک مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حکمرانوں کی ازلی بے حسی نے غریب کی زندگیوں پر مشکلات کے تاریک سائے پھیلا رکھے ہیں اور ایسے حالات میں ہمارے حکمرانوں کے فیصلے کس قدر سطحی سوچ کے آئینہ دار ہیں۔
ماڈل مسجدیں بنانی ہیں تو ایسی مسجدیں بنائو جہاں سے لوگ اتحاد یگانگت، ایثار، دیانت، سچائی کا درس لیں جہاں آنے والے نفاق جھوٹ، بددیانتی، دھوکہ دہی اور تفرقہ بازی کو بھول کر خیر بانٹنے والے باکردار مسلمان بنیں۔
ماڈل مسجدیں بنانی ہیں تو ایسی مسجدیں بنائو جہاں آنے والے لوگ نفاق جھوٹ بددیانتی دھوکہ دہی تفرقہ بازی کی بجائے اتحاد ایثار دیانت اور سچائی سیکھیں۔ ریاست مدینہ میں کردار کی تعمیر ہوتی تھی سوچ کے راستے اجالے جاتے تھے۔ ، ذہن و دل کی تاریکیاں روشنی میں بدلی جاتی تھیں۔ افسوس کہ ہم سطحی سوچ کے اسیر ہو گئے مسجد کے سبز گنبد و محراب پر کروڑوں بھی لگا لیں تو مسلمانی کردار تعمیر نہیں ہوتے۔ اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہوتی۔