لسان العصر اکبر الہ آبادی کا انتقال 9 ستمبر 1921 کو الہ آباد میں ہوا 9 ستمبر 2021 تک پوری ایک صدی بنتی ہے۔ محبان اردو اور محبان اکبر الہ آبادی نے اسے اکبر صدی کا نام دیا اور سال رواں 2021 کو اکبر الہ آبادی کے سال کے طور پر منایا۔ اس حوالے سے بہت اہم کتاب اس سال منظر عام پر آئی ہے۔ یہ کتاب ان کے خطوط کا مجموعہ ہے جسے مجموعہ مکاتیب اکبر کا نام دیا گیا۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں جب کہ ہم یکسو ہونے کی نعمت سے تقریبا محروم ہو چکے ہیں اور کتاب پڑھنے کے لئے جو ارتکاز درکار ہے وہ آسانی سے حاصل نہیں ہوتا۔
پچھلے کچھ ہفتوں سے یہ چھ سو صفحات پر مبنی ضخیم کتاب میرے زیر مطالعہ ہے۔ روز صبح دن کے معمولات آغاز ہونے سے پہلے مخصوص وقت پر کتاب کو پڑ ھتی ہوں اور اکبر الہ آبادی کے زمانے میں پہنچ جاتی ہوں۔ عادت یہ ہے کہ ایک وقت میں کئی کتابیں شروع کی ہوتی ہیں۔ سو اس کتاب کے لئے ایک مخصوص وقت رکھا تاکہ پڑھنے اور سمجھنے میں ترتیب کا احساس رہے۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے قارئین کو بھی اردو ادب کی نابغہ روزگار شخصیت اکبر الہ آبادی کے دور میں لے جاؤں، ذرا اس کتاب کے حصول کا دلچسپ پس منظر پڑھ لیجئے۔
ڈاکٹر معین نظامی کی ایک پوسٹ سے مجھے اس کتاب کا علم ہوا۔ کتاب دیکھ کر ہی لگا کہ اسے خرید لینا چاہیے۔ بھلا ہو احمد تراث کا جس نے مجھے محمد راشد شیخ کا فون نمبر بھیج دیا اور کہا آپا یہ کتاب براہ راست مرتب سے منگوالیں، بہت کم نسخے رہ گئے ہیں کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد راشد شیخ اس کتاب کے مرتب ہیں جو ایک خاموش طبع خلوت نشین بزرگ ہیں اور اس سے پہلے بھی کئی اکابرین پر بنیادی نوعیت کے تحقیقی کام کر چکے ہیں۔ اکبر کے سیکڑوں خطوط کی جمع آوری ہر گز آسان کام نہیں تھا۔ یہ وہ کام ہے جو ادبی اداروں کے کرنے کا تھا مگر انہوں نے اپنی ذاتی دلچسپی سے کئی سال پہلے جانفشانی سے اکبر کے خطوط مختلف ذرائع سے اکھٹے کرنے شروع کئے اور بالآخر رواں برس ان کو کتاب کی صورت شائع کرکے اردو ادب کے ذخیرے کو ثروت مند کیا۔ کتاب کے لیے انہیں فون کیا تو کہنے لگے کہ یہ کتاب آپ کو مفت نہیں مل سکتی۔
میں نے جواباً کہا کہ" میں مفت لینا بھی نہیں چاہتی ظاہر خریدوں گی"کہنے لگے کہ" کتاب بہت مہنگی ہے""مہنگی ہے تو کوئی بات نہیں کتاب میں خرید لوں گی "پھر کہنے لگے کے "اصل میں کتاب کا سٹاک بھی ختم ہو چکا ہے"چلیں کوئی ایک آدھ تو ضرور پڑی ہوگی بس وہ کتاب آپ مجھے دیں اور قیمت بتا دیں میں آج ہی پیسے بھجوا دیتی ہوں۔"کتاب میں میری دلچسپی اور بڑھ چکی۔ دوسری طرف انہوں نے کچھ دیر سوچا اور کہا کہ کتاب کی قیمت مبلغ تیرہ سو روپے ہے۔ میں حیران ہوئی کہ یہاں کتابیں بکتی نہیں مفت بانٹی جاتی ہیں اور ایک یہ ہیں کہ کتاب کوئی خریدنے پر آمادہ ہے مگر وہ کتاب دینے پر تیار نہیں۔ خیر فورا پیسے بھجوا دیئے گئے اور کتاب ایک ہفتے کے اندر مجھ پہنچ گئی۔
کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا کہ یہ عام کتاب ہرگز نہیں درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان ہوا، کے مصداق اس کتاب کی جمع وتدوین کے عمل میں کئی برس کی محنت اور تگ ودو شامل ہے۔ تب کہیں جا کر نایاب تحریروں کا مجموعہ پڑھنے والوں پہنچا۔ اقبال اور غالب کے بعد یہ سب سے بڑا ذخیرہ مکتوبات ہے۔ جو مجموعہ مکاتیب اکبر کے نام سے شائع ہوا۔ اس حساب سے اس کی قیمت تین ہزار بھی کم ہے۔ راشد شیخ صاحب کتاب دینے میں تامل اس لیے کر رہے تھے کتاب بہت محدود تعداد میں چھپی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ یہ شاہکار کتاب ان ہاتھوں تک پہنچے جو اس کی اہمیت پہچانتے ہوں۔
دنیا کی ہر زبان میں مشاہیر کے خطوط اس زبان وادب میں اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ خط لکھنے والا جب خط لکھ رہا ہوتا ہے تو وہ ہر قسم کے تکلفات تصنع سے ماورا ہو کر اپنے دل کی بات مکتوب الیہ کے سامنے رکھتا ہے۔ یوں اس کی شخصیت کے چھپے ہوئے گوشے بھی پڑھنے والوں کے سامنے آتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی صرف ایک اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اعلی نثر نگار بھی تھے۔ اردو ادب سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والوں نے بھی اکبر الہ آبادی کے کچھ اشعار تو ضرور سن رکھے ہوں گے کیونکہ ان کے کچھ اشعار اردو کے تعلیمی نصاب میں بھی شامل رہے ہیں جس سے ان کا تاثر یہی بنتا ہے کہ وہ انگریزی تعلیم کے بھی خلاف تھے جیسے ان کا ایک شعر ہے کہ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی، دیکھ لی قوم نے فرار کی راہ
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
ان اشعار کو پڑھ کے لگتا ہے کہ وہ انگریزی زبان پڑھنے کے بھی خلاف تھے مگر اکبر الہ آبادی کے خطوط پڑھنے کے بعد ان کا مجموعی طور پر تاثر بدل جاتا ہے۔ یہ تاثر کے وہ انگریزی پڑھنے کے خلاف تھے یکسر بدل جاتا ہے کیونکہ وہ خود اپنے صاحبزادے عشرت حسین کو پڑھنے کے لیے برطانیہ بھیجتے ہیں۔ انگریزی اخبار پائنیر باقاعدگی سے پڑھا کرتے تھے ان کے خطوط میں انگریزی الفاظ کا استعمال بہت زیادہ ہے۔
جس سے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اکبر جیسا نثر نگار اردو کے الفاظ ہوتے ہوئے بھی انگریزی کے الفاظ استعمال کیوں کرتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی خود انگریز کے دور میں سرکار کے ملازم تھے۔ آغاز انہوں نے ایک معمولی ملازمت سے کیا۔ لیکن پھر محنت کے بل بوتے پر وکالت کے امتحان پاس کرتے ہوئے سیشن جج کے عہدے تک پہنچے۔ ان کی انگریزی بہت اچھی تھی اور وہ انگریزی میں بھی وہ رواں لکھتے تھے۔ (جاری)