چند روز پہلے ہمارے وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ 9 اگست کو ٹائیگر فورس کا دن منایا جائے گا۔ اس دن سے میں اسی سوچ میں غلطاں ہوں کہ آخر ٹائیگر فورس نے ایسا کون سا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ قوم ٹائیگر فورس کا دن منائے۔
تو صاحبو! آج 9 اگست ہے۔ بروز اتوار ٹائیگر فورس کا دن پاکستان میں منایا جارہا ہے۔ اعلان تھا کہ 9 اگست کوٹائیگر فورس لاکھوں پودے لگا کر شجرکاری کا آغاز کرے گی۔ تو اگر اس دن کا مقصد درخت لگانا ہے تو پھر اسے شجرکاری ڈے کا نام کیوں نہ دیا گیا؟
وزیراعظم صاحب اگر آج یعنی 9 اگست کو شجرکاری ڈے یا درختوں کا دن منانے کو کہتے تو سیدھی سادھی عوام کو بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی اور میرے جیسا لکھاری اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی زحمت سے بچا رہتا کہ ٹائیگر فورس کے کون سے کارنامے ہیں جو مجھ تک نہ پہنچ سکے۔
کب انہوں نے بیروزگاروں اور غریبوں کو گھر گھر ان کی دہلیز پر راشن پہنچایا۔ سڑکوں کے کناروں پر لوگوں کا انتظار کرتے حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے مزدوروں کو کھانا کھلایا۔ کب انہوں نے بازاروں، مارکیٹوں اور چوکوں چوراہوں پر پہرے دیئے کہ لوگ کورونا کی وبا میں حفاظتی تدابیر پر عمل کریں۔
جی ہاں یہی وہ مقاصد تھے جن کے لیے غالباً اپریل 2020ء میں وزیراعظم نے کورونا ٹائیگر فورس کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت کورونا کے بدترین وار جاری تھے۔ سخت لاک ڈائون کا زمانہ تھا، دیہاڑی داروں پر شدید مشکلات کا دور تھا۔ دو وقت روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے کیونکہ سبھی کام بند تھے تو ایسے میں کورونا ٹائیگر کا اعلان ہوا۔
وزیراعظم نے اس فورس کے حوالے سے بڑے خوش آئند اعلانات کئے اور اہم ترین اعلان اس میں یہ تھا کہ کام بند ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھے ہوئے۔ فاقے کاٹتے، مزدوروں، دیہاڑی داروں اور غربا کو یہ ٹائیگر فورس گھر کی دہلیز پر راشن فراہم کرے گی۔
بیانات اور اعلانات کی حد تک تو بات اچھی تھی مگر حقیقت میں کیا ہوا۔ لاک ڈائون میں بیروزگاری کا بدترین دور غربا نے گزارا۔ درد دل رکھنے والے ہم وطنوں نے مدد کی، ویلفیئر کا کام کرنے والی چھوٹی بڑی تنظیمیں میدان میں اتریں اور الحمد للہ کوئی پاکستان بھوک سے موت کے منہ میں نہیں گیا۔
اس سارے مشکل دور میں کورونا ٹائیگر فورس کہیں نظر نہیں آئی۔ کروڑوں روپے لگا کران کے یونیفارم بنائے گئے، ٹائیگر فورس کے "لوگو" والی جیکٹس تیار ہوتی ہوئیں لیکن یہ ٹائیگر ہمیں کہیں قوم کی خدمت کرتے نظر نہیں آئے۔ اس کے باوجود وزیراعظم اس ٹائیگر فورس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قالبے ملاتے دکھائی دیئے۔ ایک بار فرمایا کہ ٹائیگر فورس بنانے پر پوری دنیا ہماری تعریف کر رہی ہے۔
پھر گویا ہوئے کہ اس ٹائیگر فورس سے ہم نے ابھی اور بھی کام لینے ہیں یعنی جس کام کے لیے یہ فورس وجود میں آئی، وہ کام تو ان سے ہوا نہیں لیکن اور کام ان سے لینے ہیں۔ خوش فہمی اور خوش گمانی کی یہ کوئی آخری حد معلوم ہوتی ہے۔ اس ٹائیگر فورس کے ذمہ ایک یہ کام بھی تھا کہ رمضان المبارک کے دنوں میں عید کی خریداری سے پہلے بازاروں اور مارکیٹوں میں ٹائیگر فورس پہرہ دے گی تاکہ لوگ رش نہ کریں۔ ایس او پیز پر عمل کریں اور یوں وبا کنٹرول میں رہے۔
سنا ہے کہ سیالکوٹ کے بازاروں میں چند ٹائیگروں نے یہ کارنامہ ضرور سرانجام دیا، اس کے علاوہ پورے ملک میں کہیں یہ مخلوق دکھائی نہیں دی اور نتیجہ کس قدر خوفناک نکلا یہ سب کے سامنے ہے۔ کورونا بری طرح پھیلا۔ لاکھوں لوگ اس کی لپیٹ میں آئے۔ سینکڑوں اموات ہوئیں اب جبکہ اللہ کے خاص فضل و کرم سے وبا اپنا بوریا بستر سمیٹ رہی ہے۔ دیہاڑی دار مزدور اپنا رزق تلاش کرنے گھر سے نکلنے لگے ہیں، کاروبار اور کاروبار حیات چل پڑا ہے اور اللہ کرے چلتا رہے۔ تو ایسے میں ہمیں یاد ہی نہ تھا کہ کوئی ٹائیگر فورس بھی وجود میں آئی تھی۔
ہم اچھا خاصا بھول چکے کہ وزیراعظم نے 9 اگست کو ٹائیگر فورس کا دن منا کر ہماری امیدوں اور توقعات کو تازہ کر دیا ہے۔ دن ہی منانا تھا تو سفید کوٹ والے ڈاکٹروں، نرسوں اور دوسرے پیرامیڈیکس کا دن مناتے، کورونا کو شکست دینے کی اس جنگ میں اگلے محاذوں پر ڈٹا رہا اور آج تک ڈٹا ہے۔
دن ہی منانا تھا تو ان عظیم مسیحائوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن مناتے جو ہسپتالوں میں مسیحائی کرتے کرتے خود کورونا کا شکار ہوئے اور محاذ جنگ پر شہید ہو گئے۔ کیسے کیسے جوان رعنا، قابل، ذہین اور قیمتی ڈاکٹر مریضوں کا علاج کرتے کرتے خود موت کے منہ میں چلے گئے۔
کورونا کے خلاف یہ جنگ جو اس وقت ہم جیت رہے ہیں تو اسی لیے کہ ہمارے عظیم ڈاکٹروں، نرسوں اور محنتی پیرامڈیکل سٹاف نے سہولیات سے عاری ماحول میں بھی بیماری کے خطرات کے سامنے شب و روز مستقل مزاجی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ اگر وزیراعظم سفید کوٹ والی آرمی کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن مناتے تو پوری قوم اس دن کو اپنے دل کی گہرائیوں سے مناتی۔ قوم پر یقینا ان مسیحائوں کا قرض باقی رہے گا۔
9 اگست کو اگر درخت ہی لگانے ہیں تو اسے شجرکاری ڈے کا نام دینا تھا۔