رمضان کی آمد اور اس بار کچھ سونی سونی سی ہے۔ عموماً رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی بہت سی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ گھروں میں خواتین گھر کی تفصیلی صفائیاں کرتی ہیں پردے دھلوائے جاتے ہیں، فرش چمکائے جاتے ہیں۔ جہاں صفائیاں معمول کا حصہ نہیں ہوتیں وہاں تو دیواروں کی گرد بھی رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی جھاڑی جاتی ہے اور کونوں کھدروں کے جالے بھی اسی ماہ مبارک کی آمد سے قبل اتارے جاتے ہیں۔ الحمد اللہ ہمارے ہاں تو صفائی معمول کی صفائیاں بھی غیر عمولی انداز میں ہوتی ہیں۔ سو رمضان المبارک سے قبل ہمارے ہاں صفائیوں کے نام پر ایسی گرد نہیں اڑتی اور نہ ہی باورچی خانے میں کوئی لمبی چوڑی تیاریاں ہوتی ہیں۔ کئی گھروں میں تو مہینے بھر کے کھانے ہفتے میں مکمل کر کے فریزروں میں منجمد کرنے کا رواج ہے۔ ذائقے کو صحت پر ترجیح دینا بھی ہماری ایک روایت ہے، سو اس روایت ہم پوری طرح کاربند رہتے ہیں۔ کسی حد تک تو باورچی خانے کی تیاری کرنا ہی ہوتی ہے کہ مگر اب میں اس تیاری کی تفصیل میں نہیں جائوں گی کہ کالم مکمل طور پر خواتین ایڈیشن کا مضمون بن جائے گا جیسے پڑھتے ہوئے منہمیں املی کی چٹنی کا ذائقہ گھلے گا۔ ہری چٹنی کا چٹخارہ محسوس ہو گا اور خستہ پکوڑوں کی ذائقے دار خوشبو نتھنوں میں گھلنے لگے گی۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل جو رونق اور مصروفیت ہمیں اپنا اسیر کرتی تھی وہ ایسے ساتھیوں کے لئے رمضان اور عید کی تیاری کا اہتمام کرنے سے متعلق تھی۔ جن کی معاشی مجبوریاں ان کی زندگی کی ضرورتوں سے زیادہ ہیں اور زندگی کا تانا بانا قدرت نے ایسا بنا کہ ہماری زندگیوں میں ایسے لوگ ہمارے ساتھ وابستہ ہیں۔ ضرورت مند قرابت دار گھریلو ملازم اور ایسے ہی نادار لوگ جن کی مجبوری کی کہانی کسی نہ کسی طور ربّ آپ تک پہنچاتا ہے اور آپ کے رزق کو ان کے لئے وسیلہ بنانے کا بندوبست کرتا ہے۔ رمضان کے آغاز سے پہلے ہی خریداری کا اہتمام شروع ہو جاتا تو شب و روز کا معمول خوشی سے بھر جاتا تھا ان کی پسند سے دیگر اشیا اور کپڑوں کی خریداری کرنا اور پھر یہ تصور کہ ان تحائف سے بجھے ہوئے چہرے کیسے کھل اٹھیں گے۔
ساٹھ پینسٹھ کے پیٹے میں رضیہ کا گہرا سانولا چہرہ۔ دبی ہوئی ناک کے دونوں طرف چاندی کے کوکے پہنے ہوئے ساری عمر اس کی کوڑا اٹھانے میں گزری ہے۔ اب بیماریوں کی ایک لام ڈوری جان سے چمٹی ہوئی ہے سانس چڑھنے لگا ہے کچھ برسوں سے کام پر نہیں آتی تھی بیٹیوں، نواسے نواسیوں کی صورت ہر عمر کے لاتعداد ورکرز رضیہ کو میسر ہیں مگر رمضان کے آغاز میں ہمت پکڑتی اور ہانپتی ہوئی آن موجود ہوتی۔ رمضان کا راشن اور عید کے جوڑے اپنے ہاتھوں سے وصول کرتی۔ ایک بار اس کے عید کے جوڑا کسی اور رنگ کا آ گیا تو باقاعدہ ناراض ہو گئی اور کہنے لگی کہمیں تے کالا جوڑا پاندی آں، میں تے ایہہ لینا۔ پھر مجھے رفتہ رفتہ اندازہ ہوا کہ رضیہ کا پورا خاندان عورتیں اور مرد عیدوں اور شادیوں پر کالے رنگ کا جوڑا پہنناپسند کرتے ہیں، جھگیوں میں رہنے والے خاک بسر۔ اپنی زندگی کے اپنے معصوم اصول۔ اب کچھ بھی ہو جائے جوڑے کالے ہی آئیں گے کہ ان سے ہی ان کی خوشی وابستہ ہے۔ اب اس لاک ڈائون میں آغاز رمضان کی وہ خریداریاں یاد آتی ہیں کلثوم کے لئے آسمانی رنگ کا جوڑا ڈھونڈنے میں وقت لگنے لگا تو نوید صاحب جھنجھلانے لگے اب بس بھی کر دو تم جو بھی دو گی اسے پسند ہی آنا ہے۔ ہاں مگر اس کو اس بار آسمانی رنگ کا جوڑا چاہیے حیرت کے ساتھ مجھ پر نظریں اٹھیں کہ کیا تمہیں الہام ہوا ہے؟ اب میں کیا بتاتی کہ باتوں باتوں میں ان کی پسند ضرورت اور خواہش پوچھ لیتی۔ پچھلی بار پیلا رنگ تھا اور اب کی بار اسے آسمانی چاہیے سو بالآخر آسمانی جوڑا ہی خریدا گیا۔ آزادی اور بے فکری کے ساتھ ایک دکان سے دوسری میں جانا خریداری کرنا۔ اس بار ممکن نہیں ہے یقینا کوئی راستہ تو نکالیں گے ایک مہینے سے جن کے کاروبار بند ہیں ان دکانوں کو کھولنے کے لئے ایس او پیز تیار کئے جا رہے ہیں، اصل مسئلہ ان پر عملدرآمد کا ہے۔ درزی کی دکانیں کھولنے کی اجازت مل گئی ہے تو اب کپڑے اور گارمنٹس کی دکانیں بھی کھلنی چاہئیں۔ آج اخبار میں بھی ہے کہ ماہ رمضان میں انشاء اللہ یہ دکانیں کھل جائیں گی۔ ہر فرد کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ کس طرح سماجی دوری کا اہتمام کرتا ہے۔ خریداری کے دوران دوسرے افراد سے فاصلہ کیسے برقرار رکھتا ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ مارکیٹوں میں اعلانات کا اہتمام کیا جائے تاکہ مسلسل لوگوں کے کان میں احتیاطی تدابیر پڑتی رہیں اور وہ احتیاط کرنے میں کوتاہی نہ برتیں۔
وبا کے موسم کے پیش نظر انسان کو انسان سے دور رہنا ہے۔ اس رمضان میں شہروں میں ہونے والی اجتماعی افطاریوں پر پابندی ہو گی۔ اہل خیر وسیع دسترخوانوں کا اہتمام کیا کرتے تھے غربت اور بھوک سے نڈھال خلق خدا ان دسترخوانوں پر آ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتی۔ اس بار اجتماعی افطاریوں کا اہتمام نہیں ہو سکے گا۔ اس بار رمضان اس منظر سے خالی رہے گا۔ راشن دینے کے حکومتی دعوے اور وعدے تو ہم سنتے ہیں لیکن مجھے ابھی کوئی ایسا غریب شہر نہیں ملا جس کو سرکار کی طرف سے راشن ملا ہو۔ میں اپنی سطح پر ایسے سروے کرتی رہتی ہوں تاکہ میڈیا کی خبروں سے ہٹ کر اصل صورت حال کا پتہ چلے زیادہ تر لوگوں نے یہی بتایا کہ حکومت کے بتائے ہوئے نمبر پر شناختی کارڈ بھیجتے ہی انہیں پیغام موصول ہوا کہ یہ نمبر درست نہیں ہے۔ کچھ کو پیغام ملا کہ آپ سے رابطہ کریں گے۔ یہ وہ ضرورت مند ہیں جو ہر طرح سے حکومتی امداد کے حق دار ہیں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے ان کی مزدوری اور کام بند ہے۔
اس بار رمضان المبارک ہم ایک نئے احساس کے ساتھ گزاریں گے۔ وبا کے موسم کی پابندیوں سے رمضان کی رونقوں میں کمی محسوس ہوگی۔ خدا کرے کہ یہ کمی ہمارے اندر ایک احساس زیاں کو جنم دے۔ جس میں ربّ کی بے پایاں نعمتوں کے تشکر کا احساس ہو۔ اپنی کوتاہیوں کی توبہ ہو۔ توبہ اور استغفار۔ صرف منہ کا وظیفہ نہیں ہے جب تک معاملات نہ بدلیں تو کیسی توبہ!! سنا ہے آج ملک میں یوم توبہ منایا جا رہا ہے۔ !