ایک زندگی میں ہم پر کئی زمانے گزر گئے۔ ایک زمانہ خواب کا تھا، خوش فہمیوں کا تھا۔ حقیقتوں سے دور آدرشوں اور آرزوئوں کا تھا۔ اس وقت خوش فہمی کی تتلیاں لہو میں رقص کرتی تھیں۔ ہم آئیڈیل بناتے، تراشتے اور سنوارتے تھے۔ اس بات سے بے خبر کہ آئیڈیل ٹوٹنے کے لئے ہوتے ہیں۔ ہم بلند بانگ وعدوں کے عظیم الشان محلات میں رہتے تھے۔ ہم دنیا کو بدل دینے۔ کا عزم رکھتے تھے۔ ہم سوچتے تھے کہ ہم اپنے وطن کا فرض اتاریں گے۔
ہم سیاسی رہنمائوں کی تقریروں پر یقین کر لیتے اور سوچتے ان کے لفظوں میں جو درد کا آہنگ بولتا ہے، وہ سچا ہے، ہم سوچتے کہ جیسے ہم اس دھرتی کے عشق میں گرفتار ہیں، ایسے ہی حکومتوں اور سیاست کے منظر نامے پر چھائے ہوئے یہ "سیاسی رہنما" بھی اس مٹی کی محبت سے سرشار ہیں۔ ہم اس وقت نہیں جانتے تھے کہ جنگ اور محبت کی طرح سیاست میں بھی سب جائز ہے۔ جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا۔ غریب عوام کو خوشحالی کے خواب دکھا کر ووٹ لینا۔ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لگا کر پاکستان کے ستر فیصد غریبوں کے دل جیتنا، پیلی ٹیکسی، کبھی قرض اتارو ملک سنوارو جیسے پاکھنڈ کو اپنے تئیں وطن کی خاطر سچا کام تصور کر لینا۔
قومی ترانے کی روح گرما دینے والی دھن کے بعد، سبز ہلالی پرچم کے لہراتے ہوئے منظر کے بعد"میرے عزیز ہم وطنو! سے شروع ہونے والی تقریروں پر ایمان لے آنا۔ قسمت بدلے گی ہاں، پاکستان کے عام آدمی کو انصاف ملے گا۔ پاکستان کا ہر بچہ، اپنا بستہ کاندھے پر رکھے سکول جائے گا۔ تعلیم سب کے لئے ہو گی۔ خوشحالی پر سب کا حق ہو گا۔ زندگی کی بنیادی ضرورتیں، معاشرے کے ہر فرد کو نصیب ہوں گی۔ سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو، براہوی، سرائیکی، اردو، بولنے والوں کو صرف پاکستانی ہونے پر فخر ہو گا۔ یہی ایک رشتہ انہیں زبان و ثقافت اور رسم و رواج کے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے سے جوڑے رکھے گا۔ یہ خواب مگر خواب رہا۔ وقت سرکا تو اندازہ ہوا کہ منظر وہ نہیں تھا جو ہمیں دکھایا گیا۔ سچ وہ نہیں تھا جو ہمیں بتایا گیا۔ یہاں سیاستدان کے روپ میں ہمیں مداری ملے مداری جو تماشائیوں کو اپنے ساتھ باندھنے کے لئے نت نئے کرتب کرتا ہے۔ ہم جنہیں رہنما سمجھتے تھے وہ اس وطن کو چراگاہ سمجھتے رہے۔
صرف سیاست ہی کیا۔ عدلیہ، بیورو کریسی اور طاقت کے دوسرے مراکز میں بھی قول و فعل کا ایسا ہی خوفناک تضاد رہا۔ کبھی انصاف فروخت ہوتا۔ کبھی بیورو کریسی، سیاست کا آلہ کار بنتی رہی۔ طاقت کے دوسرے مراکز بساط پلٹ دینے کی اہلیت رکھنے لگے، تو جمہوری حکومتیں کٹھ پتلی بن گئیں۔ طاقت کی رسہ کشی کا افسوسناک کھیل پس منظر میں کھیلا جاتا رہا۔ طاقت اور اختیار کے ان مراکز سے دور ایک عام پاکستانی بھی پاکستان سے محبت میں قول و فعل کے خوفناک تضاد کا شکار رہا۔ کبھی اپنے دل سے پوچھئے کہ اس دھرتی سے ہم نے پیار کیا بھی تھا کہ نہیں۔ انفرادی سطح پر پاکستانیوں میں دھوکہ دہی، بددیانتی جھوٹ، عدم برداشت جیسی عادتوں کی وجہ سے اس دھرتی کے جسم پر کتنے زخمی رستے ہیں۔ ہم تو اپنے گھروں کو صاف کر کے کوڑا اس وطن کی گلیوں میں پھینک دیتے ہیں۔ جو یوم آزادی کو میکانکی انداز میں صرف جھنڈیاں لہرا کر منانے والے کبھی یہ تو سوچیں کہ وطن سے حقیقی محبت کے تقاضے کیا ہیں۔
محبت کی نظموں کے شاعر امجد اسلام امجد نے اپنی ایک شاہکار نظم میں اس احساس زیاں کو کمال زبان دی کہ نظم کا درد سے بھرا ہر مصرع، سیاسی اور معاشی تلخ حقیقتوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور انفرادی کوتاہیوں کی داستان سنا رہا ہے:
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و در کے جہاں تاب قصے لکھےپھول چہروں پر شبنم سی غزلیں کہیں خواب آنکھوں کے خوشبو قصیدے کہےتیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا کہاتیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھےجو تصور کے لشکر میں لڑتے رہے ہم وہ سالار ہیں اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں ہم ترے دکھ سمندر سے غافل رہےتیرے چہرے کی رونق دھواں ہو گئیہم رہیں حدیث غم دل ہےظلم کے روبرو لب کشائی نہ کیاس طرح ظالموں میں بھی شامل رہےحشر آور دنوں میں جو سوئے رہےہم وہ بیدار ہیں اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں جب تیرے زرد پڑتے ہوئے موسموں کومہکتی شفق کی ضرورت پڑی، ہم نے اپنا لہو آزمایا نہیں تیری خوشبو سکوں کی سنما لئےآندھیوں کے جلو میں بھٹکتی رہی، ہم نے روکا نہیں تیری مٹی نگاہوں میں بادل لئےخشک موسم کے رستے میں بیٹھی رہیہم نے دل کو سمندر بنایا نہیں تیری عزت زمانے کے بازار میں دل جلاتی ہوئی بولیوں پہ بکیہم نے کانوں میں سیسہ اتارا نہیں اے زمین وطنتجھ کو تو علم ہے لوگ کیوں گرد راہ ملامت ہوئےجن محافظ نما دشمنوں کے علمتیرے روشن لہو کی شہادت ہوئےہم بھی ان کی سیاست کے نخچیر ہیں آستینوں کے جو سانپ ثابت ہوئےہم بھی تیری طرح سازشوں کی ہوا کے گرفتار ہیں اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں