ہر طرح کے سیاسی جوڑ توڑ اور خریدو فروخت پاکستان کی انتخابی سیاست کا حصہ ہیں لیکن ہمیں خبر نہ تھی ہمارے دس سالہ صاحبزادے اس قدر سیاسی ہیں کہ پاکستانی انتخابی عمل سارے داؤ پیچ سمجھتے ہیں۔ صاحبزادے چوتھی کلاس میں ہیں اپنے سکول میں ڈپٹی ہیڈ بوائے کا الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اتر چکے ہیں لیکن امریکی صدارتی الیکشن مہم کی طرز پر کل انہیں اپنے سیاسی حریف جوکہ کلاس فور سی کی طالب علم ہیں، کے ساتھ ووٹرز کے سامنے اپنا انتخابی ایجنڈا پیش کرنا ہے۔
ہمارے گمان میں بھی نہ تھا کہ صاحبزادے اس قدر سیاسی ہوں گے کل جب وہ سکول سے گھر تشریف لائے تو الیکشن کی متوقع جیت سے انکا چہرہ خوشی اور جذبات سے سے تمتما رہا تھا۔ اسکول بیگ رکھنے سے پہلے ہی انہوں نے مجھے الیکشن میں اپنی انتخابی حکمت عملی کے داؤ پیچ بتانا شروع کر دئیے اور کہا کہ یہ بہت ہی اہم اور سیکرٹ باتیں ہیں جو آپ نے کسی اور سے نہیں کرنی۔ چوتھی جماعت کے دس سالہ بچے کی سکول کے ڈپٹی ہیڈ بوائے کا الیکشن جیتنے کے لئے سیاسی حکمت عملی کے چیدہ چیدہ پوائنٹ ملاحظہ کریں ۔
ماما میں نے سوچ لیا ہے کہ کیا کرنا ہے سب سے پہلے تو موسیٰ میرے لیے بیجز تیار کرے گا، ہادی اور زینا دونوں مل کر باقی بچوں سے یہ کہیں گے کہ وہ دانیال کو ووٹ دیں۔ میں کل اپنی سپیچ کروں گا، میں بچوں سے کہوں گا کہ اگر آپ مجھے ووٹ دیں گے، تو میں آپ کا ہوم ورک کم کرادوں گا۔ اسپورٹس کا پیریڈ ہفتے میں دو بار نہیں بلکہ روزانہ ہوگا۔ میں نے پوچھا بیٹا آپ ہوم ورک کیسے کم کرواسکتے ہو اور یہ کیسے ممکن ہے کہ روزانہ ہی سپورٹس ہو، ہمارے صاحبزادے مسکرائے اور بولے یہ تو میں انہیں trick کروں گا تاکہ مجھے ہی ووٹ دیں۔
اصلی میں تھوڑا ایسے ہوگااور ہم یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے۔ وہیں آنکھوں میں ملکی سیاست کے سارے منظر گھو م گئے، پھر مزید سیاسی حکمت عملی پر روشنی ڈالی اور کہا میری کلاس تو مجھے ووٹ دے دے گی، مگر ون ٹو اورتھری کے بچوں سے میں کہوں گا، دیکھو آپ مجھے ووٹ دینا میں آپ کوکینڈیز دوں گا۔
پھر الیکشن میں اپنے سیاسی حریف کے بارے میں کہنے لگے کہ میں ارسل کے سیکشن فیلوز سے کہوں گا کہ وہ بھی مجھے ووٹ دیں، میں آپ کو برگر کھلاؤں گا اور بیک سیل ڈے پرسے ایک کپ کیک مفت میں دے دوں گا تو وہ یہ سن کر اتنے خوش ہوں گے کہ مجھے ووٹ دے دیں گے ہاہا۔ ایک دفعہ پھر ہمیں ملکی سیاست کے داؤ پیچ یاد آنے لگے۔
"بیٹا چلو سکو ل کی وردی بدلتے ہیں، نہا کر تازہ دم ہو جاؤ پھر بات کرتے ہیں " نہیں نہیں ماما پہلے آپ میری پوری سٹرٹیجی سنیں "پھر مزید سیاسی داؤ پیچ پر روشنی ڈالنے لگے کہ میں نے ٹوکااور کہا "بیٹے الیکشن میں جیتنے کے لئے ہر الٹا کام کرنا اور جھوٹ کوئی اچھی بات تو نہیں " الیکشن ایک گیم کی طرح جس میں حصہ لینے والے لوگ ہار بھی سکتے ہیں اور جیت بھی سکتے ہیں۔ بس اس کے سارے عمل کو انجوائے کرنا چاہیے مگر ہمارے ہمارے سیاستدان صاحبزادے بولے یہ کہ الیکشن نہیں ایک وار ہے۔ میں اس کو جیتنا ہی چاہتا ہوں، میں بالکل ہارنا نہیں چاہتا، مجھے ہار نا اچھا نہیں لگتا۔
میں نے اس کو پھر سمجھایا کہ جیتنا بہت خوشی کی بات ہے مگر اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ہم اپنی ہار کوکتنے وقار اور گریس کے ساتھ قبول کرتے ہیں، ہارنا بھی اچھا ہوتا ہے۔ ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ہمارا یہ لیکچر سن کر صاحبزادے کچھ دیر خاموش رہے اور اپنے معصوم سے چہرے پر مزید معصومانہ چالاکی طاری کرکے کہنے لگے۔۔ اگر میں ہار گیاتو آپشن بی بھی میں نے سوچا ہوا ہے ۔
اچھا وہ کیا؟ ہم نے حیرت سے پوچھا وہ یہ کہ پھر میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ارسل کو اتنا تنگ کروں گاکہ بس۔۔ ہاہامجھے تو اس بات پر لانگ مارچ، کنٹینر اور دھرنوں کی ساری سیاست یاد آ گئی۔ پاکستان میں اپوزیشن کی سیاست کے سارے منظر میری نظروں کے سامنے تازہ ہو گئے۔ بیٹا یہ کس قسم کا پلان بی ہے۔ سچی بات میں حیران تھی کہ پاکستانی سیاست کے سارے داؤ پیچ کس طرح سے ایک دس سالہ بچے کے ذہن میں آئے ۔ ویسے میں سکول میں اتنا فیمس ہوں کی سب مجھے ووٹ دیں گے مگر مجھے ڈر ہے کہ میرے ووٹ چوری نہ ہو جائیں، حیرت کاایک ہمیں جھٹکا لگا اور پوچھا وہ کیسے؟ صاحبزادے کہنے لگے کہ کوئی ایسا نہ کردے کہ میرا نام سیریز کرکے ارسل کا لکھ دے۔
بچہ تو معصومیت میں وہ کچھ کہ گیا جس کی میں ہر گز اس سے توقع نہیں کررہی تھی یعنی پاکستانی انتخابی سیاست کے ہر ممکنہ داؤ پیچ پر اس کی گہری نظر تھی۔ نہ جانے کون کہتا ہے، بچے سیاسی نہیں ہوتے۔ بیٹا یہ بات ہے آپ کو کس نے سکھائی، ہم نے حیرت سے پوچھا؟ کسی کارٹون سیریز میں یہ سب دیکھا ہے؟ نہیں ماما پہلے سے پتا ہے کہ ایسے ہی ہوتا ہے اس لئے کہ جیتنا ضروری ہے، کچھ کرنا پڑتا ہے۔ بیٹا جیتنا ضروری نہیں ہے، یہ بھی سیکھنا ہوتا ہے کہ ہارنا کیسے ہیں، اوکے ماما۔ ٹھیک ہے لیکن میں پھر بھی جیتنا چاہتا ہوں ، ٹھیک ہے ہم اس کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں مگر پوری دیانت کے ساتھ اور دعا بھی کرتے کہ آپ جیت جاؤ ۔ بس فیض کا یہ مصرع یاد کر لو۔
گر جیت گئے تو کیا کہنا۔۔ ہارے بھی تو بازی مات نہیں
تھوڑی سی کوشش سے فیض احمد فیض کا یہ لازوال مصرع ہمارے صاحبزادے یاد کر چکے ہیں۔ انتخابی معرکہ ابھی ہونا ہے۔۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ موجودہ صورت حال میں بچے غیر سیاسی نہیں ہیں بلکہ پورے کے پورے سیاسی ہو چکے ہیں۔