یہ عجلت میں لکھی ہوئی تحریر جب آپ پڑھ رہے ہوں گے تو عیدالضحیٰ کا روشن دن ہوگا۔ سنت ابراہیمی کی ادائیگی میں آپ سب لوگ کسی نہ کسی حوالے سے مصروف ہوں گے لیکن جب میں یہ سطریں کھینچ رہی ہوں تو یہ عید سے ایک روز پہلے کا واقعہ ہے۔ صبح کے چار بجے سے چھاجوں مہینہ برس رہا ہے۔ بارش کی جلترنگ نے ایک سماں باندھا ہوا ہے حبس، گرمی، تپش سب بارش کی رم جھم میں بہہ گئے۔ آس پاس، نتھرا ہوا بھیگا ہوا ہریاول سے بھرا منظر بکھرا ہوا ہے اور ساتھ ہی گزری عیدوں کے کئی منظر جگنوئوں اور تتلیوں کی طرح آس پاس اڑتے پھرتے ہیں۔ یہ بات آج کی نہیں، برسوں سے یہی عادت ہے کہ عید سے ایک روز پہلے میں یادوں کے ریشم میں الجھی رہتی ہوں۔ گزشتہ عیدوں کے کئی رنگ یادوں میں جھلملاتے ہیں۔ پتہ نہیں عید سے ایک روز پہلے جب تہوار کی تیاریاں عروج پر ہوں تو اداسی زیادہ شدت سے کیوں اپنا آپ دکھاتی ہے؟
میں اپنی یادوں کے رنگوں میں ڈوبی ہوئی عید سے ایک روز پہلے کے کئی بکھیڑے نمٹاتی ہوں۔ کپڑوں کی تیاری باورچی خانہ سے متعلق کئی قسم کی تیاریاں، گھر کی خاص صفائی ستھرائی، سجاوٹ، مہمانوں کی آمد سے ملنا ملانا۔ عید کے مصروف دن کا شیڈول میرے ذہن پر چھایا رہتا ہے۔ عید بھی اگر بقر عید ہو تو سنت ابراہیمی کی ادائیگی میں قربانی کا فریضہ ادا کرنا پھر اس گوشت کو تین حصوں میں بانٹ کر تقسیم کروانا۔ غریب رشتہ داروں اور ضرورت مندوں تک گوشت کو پہنچانا، یہ سب کام عید ہی کے دن کے ہیں اور اس کے ساتھ ہی باورچی خانے میں امی جان کے کسی کھانے کی ترکیب آزماتے ہوئے یادوں کے رتھ پر سوار ہو کر پھر سے ان آنگنوں کی سیر کو جانا۔ جواب صرف یادوں میں بستے ہیں۔ یہ عید ایسی کیوں ہوتی ہے؟ عید کا تہوار خوشی اور اداسی۔ دونوں متضاد کیفیتوں کا سنگم ہوتا ہے۔
سو آج عید سے ایک روز پہلے میں دل یادوں کے ایسے ہی مدوجزر پر ڈولتا ہے۔ اوپر سے بارش نے کام دو آتشہ کر دیا ہے۔ بارش بھی عید کے تہوار جیسی ہے۔ خوشی اور اداسی دونوں متضاد کیفیات بارش کے منظر میں مدغم ہو جاتی ہیں۔ بچپن کی ایک بارش میں بھیگی ہوئی بقر عید یاد آتی ہے۔ ہم سکول کی ابتدائی جماعتوں میں تھے، یہی کوئی چوتھی پانچویں جماعت کا زمانہ ہوگا۔ امی جان نے بڑے چائو سے ہم دونوں بہنوں کے سرخ غرارے اور بروکیڈ کی قمیضیں سلوائیں، عید کا دوسرا جوڑا کاسنی رنگ کی ملائم سلک کے فراک تھے۔ بڑے ذوق و شوق سے امی جان کے منع کرنے کے باوجود اونچی ایڑی والا چاندی جیسا جھلمل کرتا جوتا لے لیا۔ اس وقت عیدیں ہم گائوں میں میاں جی (دادا)، پھپھو اور چاچا غلام باری کے ساتھ منایا کرتے تھے، وہ عید بھی داد اکے پنڈ کھاڑک میں منانی تھی۔ خان پور سے حافظ آباد کا ریل گاڑی کا طویل سفر تھا اور ہمارے سفری بیگوں میں عید کے نئے کپڑوں کے ساتھ خوشیوں کی ان گٹھڑیاں رکھی تھیں جن کے بارے میں ہمیں یقین تھا کہ ہم ان جادوئی گٹھڑیوں کو عید کے روز کھولیں گے تو اس میں پریاں برآمد ہوں گی جو ہمارے عید کے دن کو اور بھی سنہرا اور حسین کر دیں گی۔ خبر میں کچھ آپ پدری قسم کی ایک چھوٹی لڑکی تھی اور امی جان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود چپکے سے جھلمل کرتا چاندی کا وہ اونچی ایڑی والا جوتا سفر میں پہن آئی تھی۔ اب ریل چھک چھک کرتی جب حافظ آباد کے سٹیشن پر پو پھٹنے سے پہلے پہنچی تو وہاں موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔
جنوبی پنجاب کی کم کم بارشیں دیکھنے والے بچوں نے ایسی طوفانی قسم کی زور دار بارش پہلے نہیں دیکھی تھی۔ بارش کی سفید موٹی چادر۔ آسمان سے اترتی اور حافظ آباد کے قدرے سنسنان پلیٹ فارم سے ٹکراتی، جھاگ اڑاتی، سامنے کی ہر شے نظر سے اوجھل کرتی تھی۔ ٹرین سے اتر کر پلیٹ فارم کی سیڑھیاں چڑھ کر دوسری جانب سٹیشن سے باہر نکلنے تک میرا ایڑی والا جھلمل کرتا چاندی جیسا جوتا، بری طرح بھیگ چکا تھا اور میرا ننھا سا دل سخت پریشان تھا۔ خیر قصہ مختصر کہ اس طوفانی بارش میں ہمیں حافظ آباد شہر میں ہی ایک عزیز کے ہاں بارش رکنے تک چند گھنٹے قیام کرنا پڑا۔ گائوں شام تک پہنچے۔ عید کا روز بھی ایسی ہی طوفانی بارش کی نذر ہوا۔ سرخ غرارہ بڑے شوق سے پہنا ہی تو گائوں کی کچی مٹی کو کیچڑ کرتی بارش نے نئے سرخ غرارے کو عجب "گل و گلزار" کردیا۔ بارش میں بھیگی یہ عید بہت یادگار تھی۔ بچپن کی عیدیں شاید اسی لیے یادگار ہوتی ہیں کہ ان پر گزرے موسموں کے سائے نہیں ہوتے۔ بچپن کی عیدوں کی رہ گزر سے یادوں کے قافلے نہیں گزرتے، ان راستوں پر بے فکری میں گندھی کھکھلاہٹیں محو سفر ہوتی ہیں۔
ہم جب بڑے ہوتے جاتے ہیں تو عید کا تہوار اپنی اصل مقصد کے ساتھ ہم پر آشکار ہوتا ہے۔ تب ہمیں سمجھ آتی ہے کہ عید کا تہوار محض اپنی خوشی تک محدود رہنا نہیں بلکہ عید کا تہوار ایک ذمہ داری ہے جو ہمیں ادا کرنی ہوتی ہے۔ صرف اپنی خوشی کے بارے میں سوچتے رہنا تو خود غرضی ہے جب تک آپ آس پاس کے ضرورت مندوں، کم وسیلہ رشتہ داروں، ہمسایوں، ملازمین کو ان خوشیوں میں شریک نہ کریں۔
عید ہر صورت میں اللہ کا انعام ہے۔ اسے اسی جذبے کے ساتھ منائیں۔ عید کے تہوار پر اگر ہمارے اندر کم وسیلہ اور ضرورت مندوں کے لیے حساسیت اور ہمددی کا جذبہ بیدار نہیں ہوتاتو سمجھ لیں کہ ہم انسانیت کے درجے میں کہیں پیچھے ہیں۔ محض اپنی خوشیوں اور دولت کی نمائش سے گریز کریں۔ قربانی سنت ابراہیمی ہے۔ اس کی ادائیگی عبادت ہے اور اللہ کو عبادتوں میں نمائش اور ریاکاری پسند نہیں۔
بچپن کی میٹھی، سجری سجیلی عیدوں کو بھلے یاد کریں مگر ان میں ڈوبے نہ رہیں۔ عید کی اصل رمز کو سمجھیں اور اپنی خوشیوں کے دائرے کو اتنا بڑا کرلیں کہ اس میں محروم اور کم وسیلہ لوگ بھی سما سکیں۔