زندگی جب سے کرونائی ہوئی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہوا میں آکسیجن، نائٹروجن اور کاربن ڈائی اکسائیڈ کی جگہ، کسی انہونی کا ڈر، شک اور بیماری کا مستقل خوف موجود ہے۔ انسانی نفسیات کی پرپیج گلیوں میں خوف نے بسیرا ڈال دیا ہے۔ شہر کی گلیوں، چوراہوں اور شاہراہوں پر ایک آسیب رینگتا رہتا ہے۔ گھر کی محفوظ پناہ گاہوں میں بھی یہ آسیب کسی طور پیچھا نہیں چھوڑتا۔
دن کے اٹھارہ گھنٹے، ہاتھ دھوئے، جراثیم کش سپرے کرے۔ سینی ٹائزر لگانے ار ایک نادیدہ دشمن سے مسلسل لڑتے ہوئے گزرتے ہیں۔ فیس بک کی پوسٹوں سے وٹس ایپ میں آنے والے ویڈیو پیغامات، دعائوں، اذکار حتیٰ کہ ہلکے پھلکے لطیفوں میں اسی ایک خوف اور آسیب کا تذکرہ ہے جس کا نام ہے کرونا وائرس ہے۔ صبح کورونا شام کورونا، حتیٰ کہ دوپہر اور سہ پہر ہی کورونا کے نام ہو چکی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی مسلسل ایک خطرے اور خوف سے دوچار ہے۔ کورونا وائرس سے بچنے کے لئے سماجی دوری اختیار کرنا، باہم فاصلہ رکھنا اور دوسری احتیاطی تدابیر اختیار کرانا ایک اور بات ہے۔ مگر مسلسل اس خوف کو اپنے حواسوں پر سوار کیے رکھنا بالکل دوسری بات ہے۔
کسی انہونی، حادثے، یا بیماری کا ایک مستقل خوف، خود ایک بڑی بیماری ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کورونا سے بچ نکلنے والے خوش قسمت، کہیں اینزائٹی کے مریض نہ بن جائیں۔ کورونا ایک جسمانی بیماری ہے جس کا علاج آسان ہے۔ جبکہ ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں اگرچہ دکھائی نہیں دیتی لیکن زندگی کو اذیت سے دوچار کر دیتی ہیں۔ نفسیاتی بیماریوں کے علاج لمبے عرصے تک پر محیط ہوتے ہیں۔ ذہن اگر مسلسل خوف سے دوچار رہے تو تو اس کے ردعمل کے طور پر انسانی جسم کئی دوسرے عوارض کا شکار ہو سکتا ہے۔
وجہ اس کی بہت سادہ سی ہے کہ مستقل خوف کی کیفیت انسان کے مدافعتی نظام پر وار کر کے اسے کمزور کر دیتی ہے۔ مدافعتی نظام جیسے انگریزی میں ایونٹی سسٹم کہتے ہیں، قدرت کی طرف سے انسان کو عطا کردہ ایک ایسی نعمت ہے جو انسانی جسم پر حملہ کرنے والی بیماریوں اور نت نئے وائرسوں کے سامنے ڈھال بن کر انسانی صحت کے محافظ کا کردار ادا کرتی ہے۔ خالق کائنات نے انسان کو فطری طور پر بیماریوں سے بچانے کیلئے جسم کے اندر جو حفاظتی ڈھال، مدافعتی نظام کی صورت میں تخلیق کی ہے۔ امید اور مثبت سوچ، اس ڈھال کو مضبوط کرتی ہے جبکہ، خوف اور ناامیدی کی مسلسل کیفیت اس ڈھال کو کمزور کرتی ہے۔
خوف کی کیفیت میں جسم میں سٹریس ہارمونز خارج ہوتے ہیں یہ سٹریس ہارمون، دشمن کی فوج کی طرح، مدافعتی نظام کے مختلف حلقوں پر حملہ کر کے اسے کمزور بناتے ہیں۔ یہ سٹریس ہارمون، اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ اگر انسانی جسم مسلسل خوف اور اینزائٹی کی کیفیت میں، سٹریس ہارمون خارج کرتا رہے تو جسم میں رواں دواں خون کی کمپوزیشن کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ خون میں موجود وائٹ بلڈ سیل (WBC) کی کمی ہونے لگتی ہیں۔ جبکہ وائٹ بلڈ سیل، ایک ایسی حفاظتی بریگیڈ ہے، جو انسانی جسم میں باہر سے در آنے والی بیکٹیریا، جراثیموں اور قسم قسم کے وائرسوں کو کمزور کر کے انہیں جسم میں تخریبی کارروائیوں سے روکتی ہے۔
یہ سب کچھ دراصل قدرت کے ایک پیچیدہ ڈیفنس میکانزم کا ایک حصہ ہے۔ مسلسل خوف، ذہنی دبائو اور نفسیاتی ہیجان کی کیفیت انسان کے اینڈو کرائن سسٹم کو بھی کمزور کرتی ہے۔ انسانی جسم میں مختلف طرح کے گلینڈز یا غدودیں ہیں جو مختلف ہارمون خارج کرتے ہیں۔ جو انسان کی صحت اور اچھی نشو و نما کے ضامن ہوتے ہیں۔ ہارمونز کا یہ سسٹم ڈسٹرب ہو جائے تو انسانی جسم بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اینڈوکرائن سسٹم، ہمارے مدافعتی نظام کا بنیادی حصہ ہے۔ میں نہ کوئی ڈاکٹر ہوں، نہ کوئی امیونولوجسٹ، بس ایک طالب علم کی حیثیت سے قدرت کے اس عظیم الشان صحت کے دفاعی نظام کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔ قدرت نے انسان کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کے ساتھ ہی ایسا دفاعی نظام پیدا کیا ہے جو اسے بیماریوں کے ان گنت حملوں سے بچاتا ہے۔ اس عظیم الشان نعمت کو سمجھنے اور اس کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا نے بڑے بڑے امیونولوجسٹ کا یہ ماننا ہے کہ بیکٹیریا اور وائرس ہم پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں اور ایک مضبوط مدافعتی نظام، جسم میں بیماریوں کو بننے سے روکتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ انسان کو اس بات کی خبر بھی نہیں ہوتی کہ ایک مضبوط امیونٹی سسٹم کس طرح انسانی جسم میں خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت میں لگا رہتا ہے۔ جسم میں کینسر کے ابنارمل سیل بھی بنتے رہتے ہیں اور قدرت کا یہ دفاعی میکانزم ان کو مات دے کر انسانی جسم کو تندرست اور توانا رکھتا ہے۔
لیکن یہ اس صورت ممکن ہے جب مدافعتی نظام مضبوط ہو اگر یہ دفاعی میکانزم کمزور پڑ جائے تو پھر جسم بیماریوں کا آسان ٹارگٹ بن سکتا ہے۔ کرونا وائرس سے بچائو کے لئے ایک سب سے اہم حفاظتی تدبیر جو دنیا بھر کے ڈاکٹر اور سائنس دان جسے مسلسل دھرا رہے ہیں وہ ہے مضبوط امیونٹی سسٹم۔ جو اس وائرس کے حملے کو بھی روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں اب جو مشاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق، جن مریضوں کا مدافعتی نظام مضبوط تھا وہ اس وائرس کا شکار ہونے کے بعد بھی اس وائرس کو شکست دے کر صحت یاب ہو گئے۔
وٹامن سی کا استعمال، پھلوں، سبزیوں اور متوازن غذا کا استعمال اس دفاعی میکانزم کو مضبوط ضرور کرتا ہے لیکن اگر ان تمام حفاظتی تدابیر کے ساتھ آپ ذہنی طور پر کمزور ہوں، ناامید ہوں خدشوں اور خوف کا شکار رہیں تو سوچ کا یہ منفی رخ اس دفاعی میکانزم کو شکست و ریخت سے دوچار کر سکتا ہے۔ خوف سے آزاد۔ خوش امیدی سے بھری ہوئی، سوچ، امیونٹی سسٹم کی مضبوطی کے لئے سب سے ضروری وٹامن ہے۔ کالم کا اختتام ہو چکا اور وہ موضوع ابھی باقی ہے جس سے کالم کا آغاز کیا تھا۔ انشاء اللہ اگلی نشست میں اس پر بات ہو گی۔