کاغذ اور قلم اپنے سامنے رکھے۔ کب سے اس سوچ میں ہوں کہ کیا لکھوں۔ کالم نگاری کے نام پر روز صفحے سیاہ کرتی ہوں، روز حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کا ماتم کرتی ہوں، روز اس سماج کے زوال کا نوحہ پڑتی ہوں لیکن وحشت ہے کہ یہاں بڑھتی جاتی ہے۔ ایک سانحہ ہوتا ہے، اس کا ماتم اس کا نوحہ ابھی لبوں پر ہے کہ اس سے بڑا سانحہ وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔
مگر آج تو ایسا لگتا ہے کہ غم و غصے سے احساس کے تن بدن میں آگ لگی ہے۔ الفاظ جھلس رہے ہیں، اظہار بیان راکھ ہو گیا۔ سڑک پر پیش آنے والے انسانیت سوز واقعے نے نہ جانے حکمرانوں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں اور ان کے افسران اور ریاست میں امن و امان کی ذمہ داری پوری کرنے والے اہل اختیار کے سر شرم سے جھکائے یا نہیں لیکن ہر پاکستانی کا شرم سے جھک گیا ہے۔
ایک ماں جواپنے دو بچوں کے ساتھ سڑک پر سفر کر رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ اپنے ملک پاکستان کی محفوظ فضائوں میں ہے، یہاں آئین پاکستان اسے پاکستان کے شہری کی حیثیت سے اس کے جان اور مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، یہاں قانون ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں، پولیس کا نظام ہے، پولیس کے مستعد اہلکار سفید گاڑیوں پر نیلی بتیاں لگائے سڑک پر گشت کرتے پھرتے ہیں اور سڑک پر سفر کرنے والے مسافروں کو تحفظ کا احساس دلاتے ہیں۔ اس ملک کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان دن رات ریاست مدینہ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ تبدیلی کے دعویدار ہیں۔ انصاف اور قانون پر یقین رکھتے ہیں۔ پنجاب میں کپتان کا چنا ہوا کھلاڑی وسیم اکرم پلس، وزیر اعلیٰ کی مسند پر بیٹھا، وزیر اعظم کے ویژن کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے دن رات کوشاں ہے۔ پنجاب پولیس کو رشوت کرپشن اور سیاسی دبائو سے پاک کرنے کے لئے اتنی تندہی سے کام ہو رہا ہے کہ دو برسوں میں پانچ آئی جی تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ پنجاب پولیس کی کارکردگی کو سوفیصد بہتر بنانے کے لئے ہمہ وقت یہاں تبدیلیوں کی ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ ایک بار پھر اتھل پتھل جاری ہے اور یقینا اس کا مقصد یہی ہو گا کہ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنا کر عوام کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ اپنے گھر سے سفر کے لئے نکلنے والی دو بچوں کی ماں کو پورا یقین تھا کہ وہ اور اس کا خاندان محفوظ پنجاب میں سفر کر رہے ہیں۔ وہ اس احساس کو لے کر موٹر وے پر محو سفر تھے کہ پٹرول ختم ہو گیا وہ پٹرول لینے کے لئے رکے۔ اتنے میں محفوظ پنجاب کی محفوظ فضائوں میں ان پر کچھ اوباش حملہ کر دیتے ہیں، خوف زدہ ماں اور بچے گاڑی کے دروازے لاک کر کے، پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کرتے ہیں اوباش ڈاکو انہیں گاڑی کا دروازہ کھولنے کا کہتے ہیں۔ وہ ماں پریقین ہوتی ہے کہ سڑک پر سفر کرنے والے مسافروں کی محافظ پولیس آ کر انہیں اس عذاب سے نجات دے گی۔ مگر ان کی پکار پرکوئی نہیں آتا۔ اوباش گاڑی کے شیشے توڑ کر ماں اور بچوں کو گھسیٹ کر نکالتے ہیں۔ قریبی جنگل میں لے جاتے ہیں ماں کی عصمت دری کرتے ہیں، ظلم کے اس ہولناک منظر کو بچے دیکھ رہے ہیں۔ میرے پاس لفظ نہیں کہ اس انسانیت سوز ظلم، اس بربریت اور سماج میں بدامنی کی اس انتہا کا نوحہ لکھوں!اور میرا قلم تو اس سماج میں زوال کے نوحے لکھ لکھ کر تھکنے لگا ہے۔ کبھی فغاں کی طرح رائیگاں اثاثہء حرف۔ !آواز اٹھانا، لکھنا، کڑھنا، سب رائیگاں۔ یہ جو اقتدار اور اختیار کی مسندوں پر پتھر بیٹھے ہیں، ان کے پاس سماعت کی حِس بھی موجود نہیں۔ کبھی پتھروں کے بھی دل اور سماعتیں ہوتی ہیں۔ پچھلے چھ مہینوں سے میں نے بار بار لکھا کہ پنجاب میں 57یتیم بچیاں غائب کر دی گئیں ہیں۔ یتیم بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی کرنے والے سرکار کی سرپرستی میں سب کچھ کرتے ہیں۔ کسی کے سرپرجوں تک نہیں رینگی۔ پولیس ایک ادارہ بن سکتا تھا۔ مگر سیاسی تماشاگروں نے اسے تماشا ہی بنا دیا۔
پولیس اصلاحات کے نعرے ہر حکومت نے لگائے لیکن یہ سارے نعرے محض الیکشن مہم کے سیاسی سٹنٹ ثابت ہوئے۔ شریفوں اور زرداریوں سے امید اٹھی تو لوگوں نے کپتان سے امید باندھ لی۔ پولیس کو غیر سیاسی کرنے کے جو بلند بانگ دعوے کپتان نے ہم سے کنٹینر پر کئے اس کا ایک فیصد بھی اگر عملی صورت اختیار کرتا تو صورت اتنی بدحال نہ ہوتی۔ کہاں پولیس کو غیر سیاسی کرنے کے وعدے اور دعوے اور کہاں یہ حالات ہیں کہ پنجاب میں دو سال کے مختصر عرصے میں پولیس کے پانچ سربراہ تبدیل کئے گئے۔ اس سے نیچے افسران کی تبدیلیاں اور اتھل پتھل اس تواتر سے ہو رہی ہے کہ پولیس کو غیر سیاسی بنانے کے تمام دعوے اپنی موت آپ مر چکے ہیں۔ غضب کیا تیرے وعدے پر اعتبار کیا۔ ان حالات میں جب پولیس کے سربراہ اور افسران کی دھڑا دھڑ اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہو تو قانون نافذ کرنے والے اس اہم ترین ادارے کا سارا نظام، کارکردگی، نیٹ ورک مفلوج ہو کے رہ جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کیا خاک کام ہو گا کہ کسی کو خبر ہی نہیں کہ وہ کل ہے بھی یہاں پر کہ نہیں غیر یقینی اور مسلسل غیر یقینی صورت حال کے اثرات کا خمیازہ پنجاب بدترین بدامنی کی صورت بھگت رہا ہے۔ ہم پولیس کی کارکردگی کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ یہ واقعہ اور بدامنی کی بدترین علامت بن گیا ہے۔ انصاف کی امید کس کو ہے۔ یہاں کس کو انصاف ملا جو اس ظلم گزیدہ ماں کو ملے گا۔ یہاں آج تک کوئی کسی سے نہیں پوچھ سکا کہ یتیم خانہ کی 57لڑکیاں کہاں ہیں۔ ان کے ساتھ ہونے والی جنسی درندگی کس کی سرپرستی میں ہوتی ہے۔ وہاں اس بے چاری ماں کو کیا انصاف ملے گا؟