پوری دنیا میں مائنڈ پاور ایک ایسا موضوع جس پر مسلسل تحقیق ہو رہی ہے۔ تجربات سے اس کی سچائی اور اہمیت ثابت ہو رہی ہے، اس پر ریسرچ پیپرز لکھے جا رہے، سیمینارز ورکشاپس منعقد کی جاتی ہیں۔ لوگ مائنڈ پاور کا استعمال اور اس کی حیران کن طاقت کے استعمال کو سیکھ کر اپنی زندگیاں بدل رہے ہیں۔
پچھلے چند سالوں میں میری دلچسپی بھی اس موضوع میں بتدریج بڑھی۔ ظاہر ہے پھر اس حوالے سے میں نے پڑھنا شروع کیا۔ میرے قارئین یاد ہو گا کہ میں نے اس پر غالباً دو سال پیشتر کالم بھی لکھے۔ اب سوچا کہ اس موضوع کو اپنے کالموں میں مستقل موضوع بنائوں گی۔ جیسے ہم سماج اور سیاست، ظلم اور ناانصافی پر تواتر سے لکھتے رہتے ہیں، اسی طرح موٹیویشنل تحریروں کو ہی اس فہرست میں شامل کرنا ہے اور مائنڈ پاور کا وسیع موضوع ایک ایسی چھتری کی طرح ہے جس کے نیچے، ہر طرح کے موٹیویشنل موضوعات کا ایک نہ ختم ہونے والا ہجوم ہے۔ وہ طاقت جو ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے، مایوسی سے باہر نکلنے، بیماری سے صحت یاب ہونے اور سب سے بڑھ کر خوش اور شکر گزار رہنے کے لئے چاہیے، اس کا ماخذ ہمارے باہر نہیں، ہمارے اندر موجود ہے اور وہ مائنڈ پاور۔ ہمارے ذہن کی طاقت۔
مائنڈ پاور کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہمارا ذہن دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے ایک حصے کو شعور یعنی Conscious کہتے ہیں تو دوسرے حصے کو لاشعور۔ یعنی Sub Conscious کہتے ہیں۔ اور جسے ہم مائنڈ پاور۔ کا نام دیتے ہیں، اس کا مرکز اور ماخذ ہمارا لاشعور یعنی Sub Conscious ہے۔ شعور کی نسبت ہمارا لاشعور۔ تیس ہزار گنا زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے اور کسی بھی وقت رکتا نہیں حتیٰ کہ سوتے میں، ہمارا لاشعور کام کر رہا ہوتا ہے۔
لاشعور ہمارے ذہن کے شعور میں رکھا ہوا ایک ایسا صندوق ہے جس میں ہم جو خیالات رکھیں گے۔ ہماری زندگی انہی خیالات کا پرتو بنتی جائے گی۔ ہم مایوسی، حسد، کم ہمتی، شکوے شکایات، الزامات، غرض کہ منفی خیالات اس صندوق میں جمع کریں گے تو ہماری زندگی میں یہ سب منفی خیالات حقیقت میں ڈھلتے جائیں گے اور اگر ہم لاشعور کے اس صندوق بلند ہمتی۔ امید، محبت، مثبت سوچ رکھیں گے تو اس روشنی سے اس کا عکس ہماری زندگی میں دکھائی دے گا۔
ذہن کی طاقت پر کام کرنے والے ایک سائیکالوجسٹس کا کہنا ہے کہ ہم جو بھی خیالات اپنے لاشعور میں جمع کرتے ہیں وہ ہمارے پاس زندگی کے تجربات کی صورت میں واپس آ جاتا ہے۔ ہمارا ذہن ایک ایسی قوت ہے جو ہمیں غلام بنا سکتا ہے اور ہمیں طاقتور بنا سکتا ہے۔ ولیم جیمز ایک امریکن سائیکالوجسٹ تھا۔ جس نے مائنڈ سائنسز پر قابل قدر کام کیا۔ وہ سوچ سے زندگی کو بدل دینے کی طاقت کا ماننے والا تھا اس کے الفاظ ہیں کہ
The greatest discovery of our generation' that human can alter his life by altering his mind.
قارئین!آپ اپنی زندگی پر غور کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اگر آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا کہ زندگی میں کسی کام میں ناکامی ہوئی اس ناکامی کے بعد اگر کوئی دوست آپ سے منفی مایوسی کی باتیں کر کے آپ کے اندر سے امید کے دیے کو بجھا دے تو اس تاریکی آپ کو زندگی کی ہر شے تاریک دکھائی دے گی۔ کیوکہ اس منفی توانائی سے آپ صرف زندگی کے مسائل، رکاوٹیں، فریب، دھوکے، ناانصافی اور انسانی زندگی اور معاملات سے وابستہ تمام منفی اور مایوس کن باتوں کو فوکس کرنے لگیں گے۔
جبکہ اس صورت حال کو اب دوسری طرح سے دیکھیں کہ آپ کسی ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں اور آپ کا کوئی مہربان دوست آپ کے ساتھ حوصلے اور امید کی بات کرتا ہے۔ ناکامی کے اس اندھیرے میں وہ آپ کو زندگی کے نئے امکانات اور ممکنات سے روشناس کرواتا ہے۔ تو اسی لمحے آپ کے اندر ایک مثبت توانائی بھر جائے گی۔ آپ کو دنیا امکانات سے بھری ہوئی دکھائی دے گی۔ آپ کا پرابلم آپ کے لئے ایک اپرچونیٹی بن جائے گا۔
یہ مجھے یقین ہے کہ ہم سب نے اس چیز کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور تجربہ کیا ہے۔ یہ سب مائنڈ پاور ہی کا کمال ہے۔ ایک ہی ناکامی ہے۔ جیسے ایک شخص کا لاشعور منفی انداز میں لیتا ہے۔ جبکہ دوسرے شخص کا لاشعور اسے مثبت انداز قبول کر کے اسی سے امکانات کے نئے جہان تخلیق کرتا ہے۔ مائنڈ سائنسز کے میدان میں ڈاکٹر جوزف مرفی ایک نابغہ روزگار شمار ہوتا ہے۔ اس نے صرف اس ایک موضوع پر بے شمار کتابیں لکھیں۔ غالباً سو سے زیادہ کتابیں ہیں۔ آسان ترین الفاظ میں اس کی فلاسفی یہ ہے کہ
Think good' and good follows.Think evil and evil follows.you are what you think all day
ذہن کی طاقت اور اس طاقت کو اپنی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے کیسے استعمال کرتا ہے۔ اس حوالے سے یہ ایک ابتدائی کالم تھا۔ ہمارے ہاں ٹی وی ٹاک شوز، سے لے کر سوشل میڈیا کے تھڑوں، گھروں کی بیٹھکوں تک، ہمہ وقت سماج اور سیاست کے حوالے سے منفی باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں اور منفی توانائی کا ایک سرکل ہے جو ہمہ وقت ہمارے شعور اور لاشعور کو اپنے حصار میں لیے رکھتا ہے۔ بس اسی لئے سوچا کہ روٹین کے موضوعات کے ساتھ اب اس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے رہنا ہے۔ چونکہ میں اس موضوع پر پڑھ رہی ہوں تو میرے قارئین بھی ضرور اس سے مستفید ہوں اس موضوع پر اگلا کالم آنے تک اپنے لاشعور کے صندوق سے تمام منفی خیالات اور ناامیدی سے بھری سوچیں اٹھا کر باہر پھینک دیں اور اسے امید اور شکر گزاری سے بھر لیں۔