زندگی کے شب و روز وبا کے بے رحم شکنجوں میں جکڑے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر گزرتے ہیں۔ اداس خبروں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے، جانے والے کس تیزی سے رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک موت کی خبریں سنانے والوں اور تعزیت کرنے والوں کی آماجگاہ بنتی جاتی ہے۔ ایسے میں اس آن لائن سوشلائزنگ سے دل اور بوجھل ہونے لگتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ تو اس حوالے سے ظالم رہا کہ وبا کے ہاتھوں کچھ ایسے شاداب پھول مرجھا گئے جس پر غمزدہ اور ملول ہونا فطری تھا۔ ان میں ایک ناگہانی وفات لاہور کی ایک جواں سال شاعرہ کرن وقار کی تھی۔ زندگی سے بھرپور ایک ڈیڑھ سالہ بچی کی ماں، عمر اس کی محض 34 برس تھی۔ وبا نے ایسا اسے دبوچا کہ موت کی تاریک وادی میں دھکیل کر دم لیا۔ اس کی ناگہانی موت سے جڑی ایک ٹریجڈی یہ بھی تھی کہ اسی ظالم وبا نے پہلے اس کی والدہ کو اپنا شکار کیا۔ والدہ کی وفات کے بعد اس کے جواں سال بھائی کوجو قانون کا طالب علم تھا، جکڑ لیا۔ ساتھ ہی کرن وقار خود بھی کوویڈ کا شکار ہو گئی۔ آبائی شہر اوکاڑہ میں سہولتوں سے عاری ڈسٹرکٹ ہسپتال میں بیماری کے کرب ناک لمحات میں جب اسے ہموار سانس کھینچنے کو آکسیجن تک میسر نہ تھی وہ بے چاری فیس بک پر مدد کے لیے پوسٹیں لگاتی رہی۔ میں نے اس کی یہ پوسٹیں اس کی وفات کے بعد دیکھیں جس میں وہ مدد کے لیے پکارتی ہے۔ کہتی ہے کہ وہ اوکاڑہ کے سرکاری ہسپتال میں ہے جہاں کورونا وارڈ میں نہ مریضوں کے لیے آکسیجن کا انتظام ہے نہ ہی کوئی دوسری سہولت۔ میں اور میرا بھائی تشویشناک صورت حال میں ہیں۔ کوئی اچھے ہسپتال کا بتائے کہاں جانا چاہیے۔
کرن وقار میری فیس بک فہرست میں موجود نہیں تھی۔ اس کی بیماری کا گاہے گاہے پتہ ان کی بڑی بہنوں جیسی قریبی دوست شاعرہ گلشن عزیز کی پوسٹ سے لگا۔ کورونا کے بے رحم وار نے ایک پورا گھر اجاڑ دیا۔ ایک خاندان موت کی وادی میں اتر گیا۔ لوگ سوال اٹھانے لگے کہ جب وہ مدد کے لیے پکارتی تھی تو کسی نے اس کی مدد کیوں نہ کی؟ سب اسے فیس بک پر ہی دعائیں دینے میں مصروف رہے۔ بات یہ ہے کہ فیس بک پر لوگ دعائیں ہی دے سکتے تھے۔ یہ حقیقی مسائل کو حل کرنے کی جگہ نہیں۔ نہ ہی یہاں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک افراد ایک دوسرے کے حقیقی دوست ہوتے ہیں۔ فیس بک میں فرینڈ ایک اضافی لفظ ہے۔ سو یہاں کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ لائکس اور تعریفی کمنٹس کی دنیا بھی مصنوعی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر اوکاڑہ کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں آکسیجن سلنڈر نہیں۔ مناسب انتظام نہیں تو یہ انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت ہے، اس کو ایک عام آدمی کیسے ٹھیک کر سکتا تھا۔ ہاں اس پر احتجاج کیا جاسکتا تھا۔ مگر اپنی اپنی زندگیوں کے مسائل میں جکڑے ہوئے لوگ کہاں پر اور کس حد تک احتجاج کرسکتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ فیس بک پر احتجاجی پوسٹیں لگا دیتے۔ عوام کے پاس اب یہی ایک راستہ رہ گیا ہے۔ سمارٹ فون ہر ایک کے پاس ہے۔ ویڈیو بنانا ہر کوئی جانتا ہے۔ نظام میں موجود خرابیوں کو آشکار کرتی ویڈیوز آئے دن سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں۔ اس سے مگر کیا فرق پڑتا ہے۔ کسی حد تک متاثرین کے غم و غصے کو اظہار کا راستہ مل جاتا ہے۔ مسئلہ تو وہیں رہتا ہے، یہ اور بات کہ ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی ویڈیو بنانے والا اسے اپنی کامیابی تصور کر کے اطمینان سے بیٹھ جاتا ہے۔
بس یہی کچھ کرن وقار کی مدد کے لیے پکارتی پوسٹوں کے ساتھ ہوا۔ ان پوسٹوں کو بہت سے لائکس ملے، سینکڑوں کمنٹس کئے گئے، بیسوں بار ان کو شیئر کیا گیا مگر سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا سے دور اصلی اور حقیقی دنیا میں اوکاڑہ کے سہولتوں سے سرکاری ہسپتال میں پہلے اس کی ماں دم توڑ گئی پھر اس کا جواں سال بھائی دم توڑ گیا۔ اس کے بعد وہ خود ہی موت کے منہ میں چلی گئی۔ سرکاری ہسپتالوں کی صورت حال ہمیشہ سے ایسی رہی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے آکسیجن کا انتظام نہیں کیا جا سکا، اس سے بڑی ناکامی حکومت کی کیا ہوگی۔ ادھر حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی خود فریبی کا عالم یہ ہے کہ ریاست مدینہ کا نام لیتے نہیں تھکتے۔ بارشیں ہونے کو بھی اپنی کرامت قرار دیتے ہیں۔ غریب پرور ایسے ہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ بند کر کے عام آدمی کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا گیاہے۔ ملک میں لنگر خانے کھول کر غربت مٹانے کے دعوے کرتے ہیں۔
پچھلے سال کورونا ٹائیگرز کو بڑے عالیشان انداز میں لانچ کیا گیا تھا۔ دعویٰ تھا کہ کوویڈ کی ایمرجنسی کے اس دور میں کورونا ٹائیگرز غریبوں کو ان کی دہلیز پر راشن پہنچائیں گے، مارکیٹوں میں پہرہ دیں گے کہ رش نہ بڑھنے پائے، لوگ ماسک پہنیں۔ لوگوں کو وبا کی احتیاطی تدابیر بتائیں گے۔ پھر یہ دعوے اسلام آباد میں منعقد ایک عالیشان پروگرام میں کئے گئے۔ کرووڑں روپے سے کورونا ٹائیگرز کی وردیاں سلوائی گئیں۔
حقائق یہ ہیں کہ کورونا ٹائیگرز کی یہ خلائی مخلوق آج تک کسی نے اپنی آنکھوں سے عوام کی خدمت کرتی ہوئی دیکھی ہو تو بتائے۔ امداد کا پیسہ جس سے کوویڈ ایمرجنسی کے دور میں وینٹی لیٹرز، آکسیجن سلنڈروں کا انتظام کیا جا سکتا تھا۔ وہ پیسہ کورونا ٹائیگرز جیسے سیاسی سٹنٹ پر لگا دیا گیا اور خود فریبی کا عالم یہ ہے کہ وزیراعظم اس پراجیکٹ کا کریڈٹ لینے میں اب بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ اب چھوٹے شہروں میں پھیل رہی ہے۔ اس موذی مرض میں آکسیجن کی فراہمی، علاج کی بنیادی اور فوری ضروت ہے۔ میرے پاس احتجاج کے لیے صرف الفاظ ہیں۔ معلوم نہیں کہ کس دیوار پر سر پھوڑیں اور کہاں شنوائی ہوگی۔
کرن وقار کا خاندان اس وبا نے اجاڑ دیا۔ وہ شاداب لڑکی خود موت کی وادی میں اتر گئی۔ اپنے پیچھے رنج و غم کے ساتھ ساتھ یہ سلگتا ہوا سوال بھی چھوڑ گئی کہ سرکاری ہسپتالوں میں عدم سہولتوں کی بنیاد پر وبا کے ہاتھوں مرنے والے کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں گے۔ ہلکی جیب پرائیویٹ ہسپتالوں کے بھاری بل ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ پھر ان سہولتوں سے عاری سرکاری ہسپتال ہی بچتے ہیں۔ افکار علوی نے عام آدمی کے دکھ کو کیسے زبان دی ہے
:مرشد! ہمارے ورثے میں کچھ بھی نہیں، سو ہم
بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ جائیں گے