ہم اگرچہ اپنے بکھیڑوں میں بری طرح الجھے ہوئے لوگ ہیں۔ مسائل ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہماری توجہ کی طنابیں اپنی جانب کھینچے رکھتا ہے۔ عید کی آمد پر بازاروں میں بڑھتے ہوئے رش، ایس او پیز کو یکسر نظر انداز کرنے سے کورونا پھیلنے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ عید ی آمد ہو تو خستہ حال مکانوں میں رہنے والے مکینوں کے دل میں ہی نئے کپڑے پہننے کی خواہشیں ہلکورے لیتی ہیں۔ مہنگائی اتنی ہے کہ پیٹ کا ایندھن بجھانے میں ساری مشقت صرف ہو جاتی ہے۔ سفید پوش پاکستانیوں کے لیے رمضان اور عید کی آمد پر اپنے ہم وطنوں کی سنگدلی اور بددیانتی پر مبنی رویے سے جنم لینے والی ہوشربا مہنگائی جینامشکل کردیتی ہے۔ ایسی دلخراش خبریں بھی آتی ہیں کہ عید کے کپڑے نہ ملنے پر بچے نے خودکشی کرلی۔ کہیں باپ اس معصومانہ فرمائش پر خود اپنے ہاتھوں بچوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔
سو مسائل کے اس جلتے ہوئے الائو کی تپش اتنی تیز ہے کہ ہمارا قلم تو اسی غم میں سلگتارہتا ہے، مگر کچھ سانحے ایسے کربناک ہوتے ہیں کہ جن کا ذکر کئے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔ اگرچہ وہ میری سرزمین پر میرے ملک پر اور اس کے رہنے والوں پر نہیں بیتے مگر جن پر بیتے ہیں ان سے تعلق کا ایسا ایندھن ہے کہ جو ہمیں ہزار فاصلوں کے باوجود ایک ہی ڈوری میں پرو دیتا ہے۔ وہ رشتہ ایک اللہ، اس کے آخری رسول پر ایمان رکھنے کا ہے۔ اقبال نے تو کہا تھا کہ اخوت کا رشتہ یہ ہے کہ کابل میں کانٹا چبھے اور ہندوستان کے رہنے والے بے چین ہو جائیں۔ کابل سے بڑی دلخراش خبر آئی ہے۔ کابل کے سیکنڈری سکول میں دوسری شفٹ میں پڑھنے والی معصوم طالبات پربمباری کی گئی اور پچاس سے زائد طالبات اس سانحے میں شہید ہو گئیں۔ یہ سکول تین شفٹوں میں بچوں کو تعلیم دیتا ہے۔ یہاں لڑکے اور لڑکیاں علیحدہ علیحدہ شفٹوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جس وقت بمباری کی گئی اس وقت لڑکیوں کی شفٹ تھی۔
الفاظ نہیں کہ اس سانحے کی مذمت کی جائے۔ کابل جو دہائیوں سے جنگ و جدل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے وہاں افغان گھرانوں کا اپنی لڑکیوں کو تعلیم کے لیے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں بھیجنا ہی بڑا دل گردے کا کام ہے۔ خوف کے ایسے ماحول میں ان بہادر طالبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کے بستے، کاپیاں، کتابیں سب ان کے لہو میں تر ہو گئے۔ سکول یونیفارم میں ملبوس لڑکیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ یہ سانحو تو ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں ہوا جس کے پہاڑوں پر لڑی جانے والی جنگوں کے شعلے ہماری گلی، کوچوں تک بھی پہنچے۔ ہمارا تشویش میں مبتلا ہونا فطری ہے۔ افغانستان کے امن کے ساتھ ہی پاکستان کا امن و سکون جڑا ہوا ہے۔
دوسری دلخراش خبر فلسطین کی سرزمین سے آئی۔ ہفتے کو افغانستان کا سانحہ ہوا اور سوموار کو اسرائیلی فورسز نے شمالی غزہ کے علاقے پر بمباری کی۔ بیت حنون کے پرامن رہائشوں پر یہ ظلم ڈھایا۔ بچے، عورتیں، بوڑھے، جوان سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے اور بیسیوں شہید ہو گئے۔
اسرائیلی فورسز نے یہ ظلم فلسطینی مسلمانوں پر رمضان کے بابرکت مہینے میں ڈھایا۔ سحری اور افطاری کے روح پرور لمحات، لیلۃ القدر کی مبارک گھڑیوں میں عبادت میں مصروف بیت حنون کے رہائشیوں پر عید سے چند روز قبل قیامت ڈھا دی گئی۔ زندگی لہولہان ہو گئی۔
دہائیاں بیت گئیں، فلسطینیوں پران کی اپنی ہی زمین صہیونی سازش نے تنگ کردی۔ انہیں ان کے اپنے ہی گھروں سے بے دخل کردیا گیا۔ اس سرزمین کا ایک حساس دل شاعر، محمود درویش بھی تھا جس نے اپنی ہی سرزمین پر بے گھر ہونے، اسرائیلیوں کے ظلم اور جبر سہنے کے اس کربناک تجربے کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔ وہ خود چھ برس کا جب اسے جبر کے اس ماحول میں اپنے بسے بسائے گھر سے رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح بھاگنا پڑا۔ چھ برس کا محمود درویش اپنی ماں کی انگلی تھامے رات کے اندھیرے میں ننگے پائوں بھاگتا ہوا نکلا۔ اسرائیلی فوجیوں نے بندوق کی نوک پر ان سے کہا کہ بھاگ جائو ورنہ گولیوں سے چھلنی کردیں گے۔
چھ برس کی عمر میں یہ گھر بدری۔ تمام عمر اس کے ساتھ رہی، دل کو چیرتا ہوا یہی احساس اس کی نظموں میں بولنے لگا۔ محمود درویش تمام عمر پناہ گزینی کی زندگی گزار کردنیا سے رخصت ہوا۔ اس کی نظموں میں ظلم اور جبر کے بھیانک سایوں میں زندگی کاٹتے فلسطینیوں کے دکھوں کی حقیقی ترجمانی موجود ہے۔ ایک عرب لڑکے کے اسرائیلی لڑکے سے سوال۔ یہ وہ نظم ہے جو محمود درویش نے اس وقت کہی جب وہ تیرہ برس کا تھا اور اسرائیل اپنی آٹھویں سالگرہ منا رہا تھا۔ نظم کا اردو ترجمہ دیکھئے:
تمہارے پاس گھر ہے
میرے پاس گھر کیوں نہیں
تم جسے چاہو، جس طرح چاہو
سورج کے نیچے کھیل سکتے ہو
میں کیوں نہیں؟
خوشیاں تمہارے لیے ہیں
میرے لیے کیوں نہیں؟
میں پناہ گزین کیوں ہوں
تم اور میں اکٹھے مل کر کھیل کیوں نہیں سکتے۔
محمود درویش کے ہم وطنوں پر قیامت ٹوٹی ہے۔ ہم اس کی نظمیں مستعار لے کر اسے پرسہ بھی دیتے ہیں اور اپنے دل کے کرب کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ہم یہی کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ہم اپنے بکھیڑوں میں الجھے ہوئے لوگ ہیں۔ پھر بھی جب کابل کی معصوم طالبات سکول یونیفارم میں شہید کردی جائیں اور فلسطینی گھرانوں پر قیامت ڈھا دی جائے تو ہمارا دل بے بسی کے ناقابل بیان کرب سے گزرتا ہے!!