Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Chaye

    Chaye

    میں چائے اور کتاب، یہ تکون جب بھی مکمل ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے میری ذات کے جگسا پزل تمام بکھرے ہوئے ٹکڑے باہم جڑ سے گئے ہوں۔ اچھی کتاب کے ساتھ اور اخبار کے چیدہ کالموں کے ساتھ سطر سطر چائے کے گھونٹ پینا بہت اچھا لگتا ہے یا پھر ایک اور منظر، بھاگتی دوڑتی زندگی میں کچھ ٹھہر کر سستانے جیسا ہے۔ شام کی فراغت میں، نفیس پیالیوں میں چھلکتی ہوئی چائے۔ لذت کام و ذہن کیلئے ہلکا پھلکا سا اہتمام اور اچھے دوستوں کے ساتھ گپ شپ۔ کچھ دل کی باتیں سنتے اور سناتے ہوئے شام کا سرمئی رنگ بھی چائے کی پیالیوں میں گھلتا سا محسوس ہوتا ہے۔

    ہاں قلم، کاغذ اور ساتھ رکھا ہوا ادھ پیا چائے کا کپ بھی ایک مکمل تصویر بناتا ہے۔ اس معاملے میں میرا چائے کے ساتھ وہی جذباتی رشتہ ہے، جو ابوالکلام آزاد اپنی کلاسیک" غبار خاطر" میں بیان کرتے ہیں۔ ادھر چائے دم کی ادھر کاغذ قلم رکھا۔ خیالات کو ترتیب سے لگانے کی کوشش کی۔ چائے کے مصرعے اور خیالات کی بھاپ اڑاتی پیالی سے لفظ لفظ گھونٹ کی صورت پیتے ہوئے۔

    گاہے یوں بھی ہوتا ہے کہ خیالات کا بہائو اس روانی اور طغیانی پر ہو کہ دو چار گھونٹ بھرنے کے بعد چائے کپ میں پڑی پڑی ٹھنڈی ہو جائے۔ برسوں پہلے ایک مختصر نظم ایسی ہی کیفیت میں کہی تھی:

    رات ہے رتجگا ہے اور میں ہوں

    پاس بکھری ہے میرے تنہائی

    یاد کی کرچیاں بکھرتی ہیں

    دل میں چھبتی ہے کوئی دوری سی

    سامنے میری ٹیبل پر

    ادھ پیا چائے کا کپ ہے

    اور اک نظم ہے ادھوری سی

    مجھے لگتا ہے کہ چائے کا ادھ پیا کپ

    اور ادھوری نظم زندگی کے پُر معنی اور مکمل استعارے ہیں۔

    میں سحر خیز ہوں، صبح کا آغاز رب سے میل ملاقات کے بعد ہلکی پھلکی یوگا۔ قہوے کے ایک کپ سے ہوتا ہے، اس قہوے کو بنانے کے لیے اجزا کی ترتیب بدلتی رہتی ہے مگر عمومی طور پر دار چینی، ادرک، پودینہ، میتھی دانہ، شہد اور لیموں کا استعمال ہوتا ہے۔ صبح سویرے اس قہوے کا استعمال نیند سے بیدار قدرے سست جسم میں توانائی اور تازگی کی لہر پیدا کرتا ہے۔ ایسے قہوں کو دنیا ہربل ٹی بھی کہتی ہے۔ سو میں بھی اسے غیر روایتی چائے میں شمار کرتی ہوں۔ صبح کے اوقات میں اسے گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے عموماً اپنی ڈائری پر پورے دن کا پلان لکھتی ہوں یا پھر کبھی کبھار کوئی اچھی کتاب بھی پڑھ لیتی ہوں۔

    شام کی چائے اگر خاموشی اور تنہائی کی رفاقت میں پیوں تو ایک منظر چھم سے آ کر میری تنہائی کو آباد کرتا ہے۔ یادوں میں بتا وہ پرانا گھر، امی ابو کے چھنار سائے میں گزرتی بے فکر زندگی اور امی جان کے ساتھ شام کی چائے وہ حسین وقت جیسے آئینے پر کوئی گلاب کا پھول رکھ دے۔ میری والدہ مرحومہ رفعت سعیدہ چائے کا بہت عمدہ ذوق رکھتی تھیں۔ نفیس پیالیوں میں سجی ہوئی اعلیٰ بنی ہوئی چائے کے ساتھ ہلکے پھلکے لوازمات اور سارے دن کی نان سٹاپ باتیں۔

    بہت نو عمری میں امی جان کی طرف سے ہمیں چائے پینے کی اجازت نہیں تھی۔ دودھ پینا مگر لازمی ہوا کرتا تھا لیکن جب ہم ہائی سکول میں پہنچے تو امی جان کی چائے کلب کا حصہ بن گئے۔

    ابو جان اس چائے کلب کا حصہ نہیں ہوتے تھے۔ ملازمت کی مصروفیت ایسی تھی کہ شام کے بعد گھر آتے۔ یوں بھی وہ چائے کے ایسے شوقین نہیں تھے۔ امی جان کے جانے کے بعد جب ہماری زندگیوں میں ایک خلا پیدا ہوگیا۔ چیزیں محور سے ہٹ گئیں۔ اسی گھر میں جہاں ماں اپنے وجود کے ساتھ زندگی کا چہرہ سنوارنے میں مگن رہتی وہ گھر اب ان کے وجود کے بغیر تھا اور قدم قدم پر یادوں کا سامان بکھرا پڑا تھا۔ گھر کے چولہے چونکے سے لے کر بیٹھک کی میز کرسیوں اور چارپائیوں تک جانے والے کی یادوں کے نقش گندھے ہوئے تھے۔

    تازہ جدائی کے دن سخت کڑے تھے، شام ہوتی تو ہجر کی ٹیس کچھ اور گہری ہو جاتی۔ اس دکھ میں سب ایک دوسرے سے نظر نہ ملاتے۔ مبادا ضبط کے بندھن ٹوٹ جائیں۔ شام چائے کے بغیر گزرتی پھر ایک اور بڑی بہن نے چائے بنائی ٹرے میں چائے کی پیالیاں سجائیں اور یبٹھک میں خاموش اور اداس بیٹھے ہوئے ابو جان کے سامنے ٹرے رکھ دی۔ ابو جان! آپ کے لیے چائے۔ شام کی چائے نہ پینے والے ابو جان نے چائے کا کپ اٹھالیا اور پینے لگے۔ شام کی چائے کی روایت امی جان کی تھی۔ اب وہ بھی اس میں شریک تھے۔ ہجر کے خلد میں ایک دوسرے سے نظر چرانے والے چائے پیتے ہوئے یادوں کے اشکبار تذکرے میں بھی شریک ہو گئے۔ چائے ایک ہمدم دیرینہ اور کسی غمگسار کی طرح ہم سب کو حوصلہ دے رہی تھی۔ چائے کا کپ کبھی ایک دوست اور غمگسار کا سا ساتھ نبھاتا ہے۔ دو فریقوں میں جھگڑا پھوٹ پڑے۔ نظریات کا اختلاف دھواں دینے لگے، تعلق کو بدگمانی کی آکاس بیل کھانے لگے تو فوراً چائے منگوالیں۔ چائے، کسی مہربان ثالث کی طرح معاملے کی الجھی ڈور سلجھا دے گی۔

    دم کی ہوئی چائے ہو یا دودھ پتی اور پانی کی مناسب مقدار کے ساتھ پکی ہوئی دیسی طرز کی چائے، دونوں ہی پسند ہیں بشرطیکہ چائے کا مطلوبہ رنگ اور مخصوص مہک وہی ہو جو ہمیں پسند ہے۔ بری چائے میں حلق سے نیچے نہیں اتار سکتی۔ اچھی چائے جہاں ہو وہ جگہ اور لوگ یادرہ جاتے ہیں۔ چائے کے ساتھ کتنے گزرے زمانوں کی یادیں جڑی ہوتی ہیں۔ چولستان کے صحرا میں، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا گرلز ہاسٹل، سردیوں کی یخ بستہ راتیں، سفید دھند سے بھری ہوئی راہداریوں میں، بھاپ اڑاتے چائے کے کپ ہاتھ میں لیے ہم چار سہیلیوں کا گروپ وجہ بے وجہ ہنستے چلے جانا۔ نہ ختم ہونے والی باتوں کا سلسلہ، جان ڈن کی میٹافزیکل پوٹڑی، کیٹس کی نظموں اور شیکسپیئر کے لازوال کرداروں کے درمیان سانس لیتے ہوئے ہم مستقبل کے خواب بنتے ہوئے ہم اور چائے۔

    اس دور کی چائے اگر آج پینے کو ملے تو کبھی نہ پئیوں، پتلی، کالی بھجنگ مگر ان دنوں کا ذائقہ بے مثال تھا، اسی لیے چائے بھی لاجواب تھی۔ آج بھی چائے کے کپ سے اڑتی ہوئی بھاپ کھوئے ہوئے منظروں کو پھر سے بناتی ہے۔ کچھ دیر کو سہی میں پھر سے ان منظروں کا حصہ بن جاتی ہوں۔