Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Chootay Bachon Ke Liye Online Classain

Chootay Bachon Ke Liye Online Classain

اللہ کا کروڑوں بار احسان ہے کہ کورونا کا عذاب ٹل رہا ہے۔ حالات قابو میں آ رہے ہیں اور زندگی کا چہرہ رفتہ رفتہ شادابی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ اور یہ ہی سچ ہے کہ زندگی جس نارمل صورت میں پہلے تھی اب وہ کورونا کے بعد ایک نئے نارمل کے ساتھ ہمارے سامنے ہو گی جسے new normal کا نام دیا گیا ہے۔ ہم حفاظتی ایس او پیز کے ساتھ زندگی کو گزاریں گے۔ لیکن امید ہے کہ جلد ہی ہمیں ان شکنجوں سے بھی چھٹکارا مل جائے گا۔

تعلیمی ادارے کھولنے کا مسئلہ ابھی جوں کا توں ہے۔ اگرچہ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ 15ستمبر سے تعلیمی ادارے کھلیں گے لیکن اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کچھ والدین ابھی تک اتنے خوفزدہ ہیں کہ بچوں کو اس وقت تک سکول نہیں بھیجنا چاہتے جب تک بیماری کے خاتمے کا اعلان نہیں ہو جاتا اور یہ اعلان اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس کی ویکسین آزمائشی مرحلے کے بعد مارکیٹ میں دستیاب ہو گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سکولوں نے نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ نئی کلاسوں کا اجرا آن لائن کر دیا ہے۔ جیسے میرا بیٹا جس سکول میں پڑھتا ہے ان کا تعلیمی سال اگست کے وسط سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے مئی امتحانات اور نتیجے کا مہینہ ہوتا ہے اس کے بعد تین مہینے کی گرمیوں کی چھٹیاں اور اگست میں نئی جماعتیں شروع ہوتی ہیں۔ اس بار مارچ میں بہار کے ساتھ ہی وبا بھی ہماری بستیوں پر ایسی اتری کہ زندگی بدل کر رہ گئی۔ سکول بند ہو گئے تعلیمی سال کا آخیر تھا۔ سو جو سبق کی دہرائی، رہتی تھی وہ ٹیسٹ اور سالانہ امتحانات۔ سب کچھ آن لائن ہوئے۔ لیکن بچے چونکہ پہلے سے یہ سب پڑھتے آئے تھے تو آن لائن کلاسوں میں انہیں دھرائی اور امتحان دینے میں کوئی خاص مشکل نہیں آئی۔ اب جبکہ نئی کلاسیں شروع نصاب میں سب کچھ نیا ہو گا اور پھر یہ بچے ویسے بھی ایسے طریقہ تعلیم کے عادی ہیں، وہ سبق کے مواد کو مختلف دلچسپ سرگرمیوں کے ذریعے سیکھتے ہیں۔ ایسے میں آن لائن کلاسیں انہیں بہت بور اور غیر دلچسپ لگتی ہے۔

تعلیم اگر سیکھنے کا عمل ہے تو آن لائن جماعتیں چھوٹے بچوں کے لئے اتنی پراثر اور ایفیکٹو ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔ سکول کی انتظامیہ کو صرف اپنی فیسوں سے غرض ہے۔ تعلیم ان کے لئے ایک کاروبار ہے ٹھیک ہے کہ اس کاروبار سے بہت سارے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ انہیں تنخواہیں ادا کرنی ہیں اور سکول کے دوسرے اخراجات پورے کرنے ہیں۔ سو بھاری فیسیں لینے کے لئے آن لائن کلاسیں ایک اچھا جواز ہیں۔ لیکن تعلیم کے اس کاروبار کا خمیازہ بچے کیوں بھگتیں۔؟ آن لائن کلاس کے لئے بچوں کو کم از کم پانچ سے چھ کلاسیں لینے کے لئے ہفتے میں چار دن مسلسل سکرین کے آگے بیٹھنا پڑے گا۔ ہر کلاس 40منٹ کی ہوتی ہے اس کے بعد ٹیچر کی طرف سے بھیجی گئی سبق سے متعلقہ ویڈیوز سرچ کریں۔ سبق کو سمجھنے کے لئے اس کے موضوع کو گوگل کریں۔ ظاہر ہے مائوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سے کم و بیش سارا دن آن لائن پڑھائی کی نذر ہو جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ بچے اس سے کچھ خاص سیکھتے بھی نہیں۔

بچے خاصے چڑچڑے ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے ہم جماعتوں کے چہرے نہیں دیکھ پاتے، ٹیچر کا چہرہ نہیں دیکھ پاتے۔ مسلسل ایک ہی پوز میں بیٹھنے سے کمر کے درد کی شکایت کرتے ہیں۔ گھنٹوں سکرین پر نظریں جما کر بیٹھنے سے آنکھوں میں خارش ہونے لگتی ہے۔ پانی آتا ہے۔ آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں۔ قریب کی نظر کمزور ہونے لگتی ہے چالیس چالیس منٹ کی پانچ سے چھ کلاس اٹینڈ کرنے کے بعد ان بچوں نے تفریح کے نام پر کارٹون بھی دیکھنا ہے۔ ویڈیو گیمز بھی کھیلنی ہیں۔ مائوں کے موبائل پر بھی کچھ وقت تفریح کرنی ہے۔ تو آپ اندازہ لگائیں کہ بچوں کا سکرین ٹائم کس حد تک بڑھ جائے گا۔ جبکہ ابھی تک کرونا سے پہلے تو ہم اسی کوشش میں لگے رہے ہیں کہ چھوٹے بچوں کا سکرین ٹائم کم سے کم ہو۔ لیپ ٹاپ اور موبائل کی سکرین سے نکلنے والی نیلی روشنی کی شعاعیں آنکھوں کی بینائی کو متاثر کرتی ہیں۔ سکول سے بھی مائوں کو یہی سمجھایا جاتا تھا کہ آپ کے بچے کم سکرین دیکھیں۔ بچہ کلاس میں توجہ اور یکسوئی نہیں دکھاتا۔ لگتا ہے زیادہ سکرین دیکھتا ہے اور اب یکایک سب کچھ الٹا ہو چکا ہے۔ سکول کی طرف سے سات سات سال کے بچوں کے آن لائن کلاسوں کے ٹائم ٹیبل بن کر آ رہے ہیں جس کے مطابق چالیس چالیس منٹ کی پانچ کلاسیں انہیں مسلسل سکرین تکتے اٹینڈ کرنی ہیں۔ ہر کلاس کے بعد 10منٹ کا وقفہ۔ !

ٹھیک ہے کورونا کے باعث سکول ابھی بند ہیں۔ بچوں کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت دائو پر لگا کر انہیں آن لائن کلاسوں کے شکنجے میں پھنسا دیا جائے۔ خدا کے لئے آن لائن سٹڈی سینڈروم سے ہمیں بچائیے، میں چھوٹے بچوں کے حوالے سے بات کر رہی ہوں۔ بڑے طالب علم اس کو بہتر ہینڈل کر سکتے ہیں لیکن بچوں پر رحم کریں اور ان کی مائوں پر بھی۔ کیونکہ جونیئر کلاس کا بچہ آن لائن کلاس لے گا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی ماں بھی ساتھ ہی بندھ جاتی ہے۔ زیادہ تر مائیں ورکنگ ہیں اور گھریلو بھی ہیں تو انہیں انگنت کام ہوتے ہیں وہ کسی طور بھی اپنے کام چھوڑ کر گھنٹوں سکرین کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتی۔ انٹر نیٹ میں بار بار مسائل آنے پر وقت کا زیاں الگ ہوتا ہے۔

آج میرے بیٹے کا IKMC کا میتھ ٹیسٹ تھا۔ ایک انٹرنیشنل باڈی یہ ٹیسٹ لے رہی تھی۔ پورے پاکستان کے 3-4گریڈ کے بچوں کا ایک وقت میں آن لائن ٹیسٹ تھا۔ ایک گھنٹے تک میں لاگ آن کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ بعد میں سکول کی طرف سے معذرت آ گئی کہ IKMCکے serverمیں مسئلہ ہو گیاہے۔ اس لئے ٹیسٹ نہیں ہو گا۔ آن لائن سٹڈی سسٹم میں ایسے مسائل روز مرہ کی بات ہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے جو میرا ضائع ہوا وہی اس کالم کا محرک ہے۔ بچوں کی تعلیم کا حرج قبول ہے مگر یہ آن لائن سٹڈی سینڈروم میرے لئے قابل قبول نہیں۔ کم از کم چھوٹے بچوں کے لئے یہ قابل عمل نہیں ہے۔