اب ایک نیا مسئلہ درپیش تھا کہ کیسے ٹام کو سمجھایا جائے کہ تم اپنے کمفرٹ زون سے نکلو اور آس پاس کی خرانٹ اور تیز طرار بلیوں سے اپنا دفاع کرنا سیکھو۔ مگر ٹام صاحب تو گویا بھول ہی گئے تھے کہ وہ باقاعدہ ایک عدد بلا ہیں اور بلیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اگر وہ چاہیں۔ لیکن ٹام ڈر کے باقاعدہ ایک کھلے پنجرے میں بند ہو کر بیٹھنا پسند کرتا تھا۔
چند ماہ پہلے اس نے ایک بن بلائے مہمان کی طرح ہمارے گھر میں رہنا شروع کر دیا تھا۔ لاک ڈائون کے دن تھمے کورونا پھیل رہا تھا اور ہم سب ڈرے سہمے ہر شے کو جراثیم کش سپرے کر کے ہاتھ لگانے اور استعمال کرنے کے عادی تھے۔ حتیٰ کہ گھر آنے والے اخبارات کو بھی ڈیٹول کا سپرے کر کے دھوپ میں رکھا جاتا تھا۔ ایسے ہی ایک نامعلوم کمزور بلا گھر کے لان سے زخمی حالت میں برآمد ہوا، وہ زخمی حالت میں تھا اور پودوں کے ایک جھنڈ میں ڈبکا بیٹھا تھا۔ ان دنوں وبا کا ایسا خوف دماغ پر سوار تھا کہ ایک آدھ دن کسی نے توجہ نہ دی اور سوچا کہ کہیں اس پڑوس کی کوئی بلی پودوں کی ہریالی سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ کیونکہ ہمارے پڑوس کی پالتو بلیوں اور ہیزل کا بھی ہمارے لان میں پودوں کے جھنڈ میں چھپ کر بیٹھنا ہمیشہ سے پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ لیکن وہ سرمئی بلا جب اگلے روز بھی وہیں بیٹھا ملا تو بغور معائنے سے پتہ چلا کہ وہ تو زخمی ہے۔ پھر اس کی مرہم پٹی چند روز ہوتی رہی۔ اسے دودھ ڈالتے رہے وہ مانوس ہو گیا اور اپنی ہلکی سبز آنکھوں میں محبت اور تشکر کے جذبات بھر کر ہمیں دیکھتا۔ دانیال نے اس کا نام ٹام رکھ دیا کیونکہ وہ بالکل ٹام اینڈ جیری کے کارٹونز جیسا سرمئی اور سفید رنگ کا بلا تھا۔ لیکن یہ ٹام بالکل بھی اتنا تیز اور شاطر نہ تھا۔ اس کا کھانا آس پاس کی بلیاں آ کر کھا جاتیں اور ٹام بھوکا رہتا۔ پھر ایک روز خیال آیا کہ اس کا کھانا ایک کھلے پنجرے میں رکھ دیا جائے۔ دودھ اور ہڈیاں اب پنجرے میں رکھ دیتے اور ٹام صاحب پنجرے میں آرام اور سکون سے کھانا کھاتے۔ مگر اب مسئلہ یہ ہو گیا کہ پنجرے کا دروازہ کھولتے تو بھی ٹام پنجرے سے باہر نہیں نکلنا چاہتا تھا۔ اب پنجرہ اس کا کمفرٹ زون بن چکا تھا۔ مگر اس کمفرٹ زون میں رہتے ہوئے وہ اپنی فطری صلاحیتوں کو بھی بھول رہا تھا کہ وہ بھی ایک بلا ہے۔ اگر دوسری بلیاں اس سے لڑنے اور اسے ڈرانے کی صلاحیت رکھتی ہیں تو وہ کیوں نہیں سب کر سکتا۔ ان دنوں دانیال اور اس کے بابا ٹام کو گر سکھا رہے ہیں کہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکل کر زندگی کو جینا سیکھو، ورنہ انہی بلیوں کے ہاتھوں مارے جائو گے۔ یقین کریں اس سے پہلے اس کی اتنی اچھی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ کمفرٹ زون ہے کیا، اور یہ کس طرح ہماری صلاحیتوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے کمفرٹ زون سے نکلنا کس قدر ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب ٹام کی طرح کسی نہ کسی کمفرٹ زون میں رہتے ہیں اور اسے چھوڑنے کا ڈر اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ کمفرٹ زون کے باہر ایک Fear Zone ہے، جہاں ہمیں خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس جگہ ہم خود کو عدم تحفظ کا شکار محسوس کرتے ہیں بالکل جیسے ٹام پنجرے سے باہر نکل کر سخت قسم کے خطرات میں گھرا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اسے لگتا ہے کوئی خرانٹ سی طاقتور بلی اس پر حملہ آور ہو جائے گی۔ عدم تحفظ اور خطرات سے بھر پور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں اگر وہ سیلف ڈیفنس کرنے کا گر سیکھ لے اور اپنی فطری صلاحیتوں پر بھروسہ کرے تو آس پاس کے بلے بلیوں جیسا ہی شاطر بن سکتا ہے۔ لیکن عدم اعتماد اس کے اندر کا خوف اور عدم اعتماد اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جس دن ٹام نے اس پر قابو پا لیا۔ وہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکل آئے گا۔
لوگوں کو زندگی میں آگے بڑھنے اور کامیابی کے گر سکھانے والے ٹرینرز کا کہنا ہے کہ ہمارے ارتقاء کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا کمفرٹ زون ہوتا ہے۔ Your Comfort Zone is beautiful place but nothing ever grows there.
Comfort Zone is your greatest enemy.
ایک کام جو ہم برسوں کرتے رہتے ہیں۔ وہ فائدہ دے رہا ہے یا نہیں لیکن ہم اس طرز زندگی میں ایک آرام دہ لیول حاصل کر چکے ہوئے ہیں۔ ذہنی طور پر ایک آرام کی حالت میں ہوتے ہیں کسی نئی چیز کا خطرہ ہمیں درپیش نہیں ہوتا، اگر ہم آرام کے اس دائرے میں رہیں گے تو کیسے وہ مقاصد اور خواب حاصل کریں گے، جن کی فہرست ہم نئے سال کی آمد پر بناتے ہیں۔ مگر حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ ہم اپنے آرام کے دائرے سے باہر نکل کر بے آرام نہیں ہونا چاہتے۔ 2001ء میں مجھے صحافت میں آئے 5سال ہو چکے تھے، میں ملک کے ایک بڑے اردو اخبارکی ایڈیشن انچارج تھی۔ سنڈے میگزین پر انٹرویو اور فیچرز باقاعدگی سے شائع ہوتے۔ لاہور سے سنڈے میگزین کے فیشن پیج کی انچارج تھی۔ ایک ہفتے میں کئی جگہوں پر مرا نام چھپا کرتا ایک صحافی کے لئے اتنا کافی ہوتا ہے لیکن میں ایک کمفرٹ زون میں تھی اور اس سے باہر نکلنا چاہتی تھی۔ کوئی چیلنج کوئی عدم تحفظ کسی نئی کامیابی کی جدوجہد کرنا چاہتی تھی۔ صحافت میں کسی نئے امکان کو دریافت کرنا چاہتی تھی، کمفرٹ زون میں رہ کر ایک ہی کام کرتے ہوئے یکسانیت کا شکار تھی۔ بس ایک روز کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھا۔ ناکامی اور رد کئے جانے کے عدم تحفظ کو پرے دھکیلا اور اس میڈیا گروپ کے گروپ ایڈیٹر کو ڈائریکٹ ایک درخواست نما خط فیکس کر دیا کہ میں کالم لکھنا چاہتی ہوں اور مجھے اجازت دیں، اس کے بعد کی کہانی یہ ہے کہ آج اپنے قارئین سے بطو رکالم نگار مخاطب ہوں۔ تو ساتھیو! نئی دنیائیں دریافت کرنی ہیں تو کمفرٹ زون سے باہر نکلنا ہو گا۔
رہی بات ٹام کی تو تاحال وہ کمفرٹ زون سے نکلنے پر راضی نہیں اور اس کی موٹیویشنل ٹریننگ جاری ہے، وہ ایک دن آرام کے اس دائرے سے باہر نکل آئے گا اور آپ؟