اپریل کا آغاز اگرچہ وبا کے موسم میں بڑھتی ہوئی زرد اداسی کے زیر اثر ہوا ہے مگر ہم اپنے دل کو اداسی کے اس حصار سے نکال کر ایک عظیم شخصیت کی شاندار یادوں سے روشن کرتے ہیں۔
اپریل ڈاکٹر این میری شمل کو یاد کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے کیونہ اسلامی تہذیب و تعلیمات کی یہ عظیم عالمہ اور بے مثال مستشرق 1922ء میں اپریل کی سات تاریخ کو جرمن والدین کے گھر جرمنی کے ایک چھوٹے سے شہر ارفورٹ میں پیدا ہوئیں۔
ڈاکٹر این میری شمل کی زندگی اور ان کا نام اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس سے جو کام لینا ہو، وہ اس کا بیج، اس انسان کے دل و ذھن کی مٹی میں خود بو دیتا ہے، ورنہ ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ جرمنی میں پیدا ہونے والی ایک بچی جس کے والدین پروٹسٹنٹ عیسائی تھے، جنہیں روحانیت اور اسلامی تہذیب سے بھی کوئی خاص دلچسپی نہ تھی، وہ بچی اوائل عمری میں ہی اسلامی تہذیب اور اسلام کے روحانی سلسلے میں دلچسپی لینے لگی۔ وہ مشرقی زبانوں کو سیکھنے میں بھی دلچسپی رکھتی تھیں۔ ان کی خواہش پر ہی ان کے والد پال شمل نے انہیں عربی زبان سیکھنے کے لئے گھر میں ٹیوٹر رکھ کر دیا۔
غیر معمولی ذہین، این میری شمل نے اپنی نوجوانی کے زمانے میں ہی نہ صرف عربی زبان سیکھ لی بلکہ انگریزی، فارسی اور ترکی زبانوں میں بھی مہارت حاصل کی۔ کچھ زبانیں تو ایسی تھیں جنہیں وہ لکھا ہوا پڑھ سکتی تھیں۔ مگر کچھ ایسی زبانیں تھیں جن میں این میری شمل اظہار کی صلا حیت بھی رکھتیں تھیں۔
زبانیں سیکھنے کا شوق بھی ان میں غیر معمولی نوعیت کا تھا۔ پاکستان اور اقبال سے وابستگی کے سفر میں انہوں نے اردو، پنجابی، سندھی اور سرائیکی زبانیں بھی پڑھنا سیکھیں۔ صرف انیس برس کی عمر میں اسلامی تہذیب و تعلیمات میں ڈاکٹریٹ کر لی۔ پہلی نوکری جرمنی کے وزارت خارجہ کے دفتر میں کی۔ آغاز میں کچھ عرصہ ماربورگ یونیورسٹی میں عربی فارسی اور ترکی زبان کی تدریس کا فریضہ سرانجام دیا۔
کہتے ہیں کہ جس منزل تک آپ نے پہنچنا ہوتا ہے قدرت خود بخود اس طرف جانے کے راستے آپ کے قدموں میں باندھ دیتی ہے، بھر حالا ت اور واقعات کا چکر اور قسمت کا ہیر پھیر انسان کو اپنی راستوں کی طرف موڑ دیتا ہے۔ این میری شمل کی زندگی کی ٹائم لائن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کیسے انہیں تر کی کی انقرہ یونیورسٹی میں ملازمت ملی اور انہیں ترکی آنا پڑا۔ وہاں پہلی بار انہوں نے مولانا رومیؒ کے مزار پر حاضری دی۔ بطور مستشرق(Orientalist)انہیں اسلام کے روحانی سلسلے اور تصوف سے خاص لگائو تھا۔ اور یہی لگائو انہیں قونیہ میں مولانا روم کے مزار پر لایا۔ مولانا روم کے دیوان کو پڑھنے اور ان کے مزار پر حاضری نے جرمنی کی این میری شمل کی ذات میں ایک روحانی انقلاب برپا کر دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں نے مولانا روم کے دیوان کو اپنے ہاتھ میں لیا تو مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی جیسے کسی پر آسمانی بجلی گری ہو۔ اشعار کا آہنگ مجھے مست کیے دے رہا تھا۔
وہ مولانا روم کے عاشقوں میں سے تھیں۔ انہیں مرشد قرار دیتیں۔ شاید یہی تعلق انہیں اقبال کے شعری ورثے کی طرف بھی لے کر آیا کیونکہ علامہ اقبال بھی رومی کو اپنا مرشد قرار دیتے ہیں۔ مولانا روم سے ڈاکٹر این میری شمل کی عقیدت کا عالم دیکھئے کہ انہوں نے اپنے مرشد پر آٹھ کتابیں تحریر کیں ان کی شاعری کی شرحیں لکھیں، علمی مقامات تحریر کیے۔ مغرب میں این میری شمل کی پہچان رومی شناسمستشرق کی حیثیت سے بہت پختہ ہے۔
پشاور سے واپس آتے ہوئے اپنے بھائی کی لائبریری سے آتے ہوئے ایک کتاب اٹھا لا ئی جو ڈاکٹر این میری شمل کی شہرہ آفاق کتاب The Triumphal sun: A study of the work of maulana Jalalud-din rumi کا اردو ترجمہ ہے، اردو میں اس کتاب کا نام ہے نیر تاباں۔ مولائے روم ا حوال و افکارمولانا جلال الدین رومی۔ ؒ ڈاکٹر جاوید مجید نے بڑی محنت سے اسے اردو کے قالب میں ڈالا ہے۔ اس کتاب نے مغربی دنیا میں مولانا کو متعارف کروانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے یہ کتاب کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر اہل ذوق تک پہنچی ہے اردو میں اس کتاب کی ضخامت کا عالم یہ ہے کہ ساڑھے چھ سوسے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ مضامین کی فہرست سے ڈاکٹر این میری شمل کے علمی تحقیقی کام کا اندازہ لگائیں۔ بغیر کسی قلبی لگائو کے کسی دوسری زبان میں اس نوعیت کا کام کرنا ممکن ہی نہیں۔ انہوں نے مولانا رومی کی خیال بندی اور تمثیل نگاری کی کئی جہتوں کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ رومی کے فلسفہ تصوف اور فلسفہ عشق کا ماخذ قرآن ہے۔ اس کی وضاحت میں عظیم محققہ اور عالمہ نے قرآن کی آیات کے حوالے بھی دیے ہیں۔
انہوں نے فکر اقبال پر اپنی کتاب کو Gabriel's wingکا نام دیا۔ اس کا اردو ترجمہ، ڈاکٹر محمد ریاض نے شہپر جبریل کے نام سے کیا۔ پاکستان کی سرزمین کے ساتھ ان کی روحانی عقیدت ایسی تھی کہ وہ اپنی زندگی میں کم و بیش 35بار پاکستان تشریف لائیں۔ اولیا اور صوفیاء کرام کے مزارات پر حاضری ضرور دیا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر این میری شمل نے سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ پر بھی کتاب لکھنے کی سعادت حاصل کی۔ اس میں انہوں نے عربی، فارسی، ترکی، زبانوں میں نعتیہ کلام کے نمونے بھی شامل کئے۔ رسول رحمتؐ کے ساتھ ان کی عقیدت مسلمہ تھی۔ سلمان رشدی کی گستاخانہ جسارت کی اس عظیم دانشور عالمہ خاتون نے کھل کر مذمت کی۔ کیسی کمال خاتون تھیں۔ یقینا چنی ہوئی روح تھیں۔ جیسے قدرت نے اس کام کے لئے جرمنی کی سرزمین سے منتخب کیا۔ این میری شمل نے شادی کی مگر ناکام ہوئی کیونکہ انہوں نے تو اپنی زندگی مشرقی علوم و معارف کے لئے وقف کر چھوڑی تھی۔ وہ اپنے باطنی سکون کے لئے اسلامی تصوف اور روحانیت کی سرزمینوں پر محو سفر رہیں اور 30جنوری 2003ء کو ابدی سفر پر روانہ ہو گئیں۔ جرمنی میں دفن این میری شمل کی قبر کے کتبے پر حضرت علیؓ کے یہ الفاظ کندہ ہیں۔ لوگ ابھی سو رہے ہیں، مرنے کے بعد بیدار ہوں گے۔ اللہ کریم ان کی روح کو اپنی دائمی رحمتوں میں آسودہ رکھے۔ آمین