امریکی جیل میں ناکردہ گناہ کی سزا کے طور پر قید تنہائی کاٹتی عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے یہ خط تمام اخبارات کے محترم کالم نویسوں کو بھیجا ہوگا۔
یہ ای میل مجھے چھ جون کو موصول ہوئی۔ میں نے خط پڑھا اور سوچا کہ اس کو کالم کا حصہ بنانا ہے لیکن پھر حالات و واقعات کی آندھی ایسی چلتی ہے کہ کالم نگار کی کالم نگاری اسی بہائو میں بہتی چلی جاتی ہے۔
مجھے اعتراف ہے کہ بحیثیت قوم، عافیہ کا امریکی جیل میں 80برس کی طویل مدت کی قید کاٹتے چلے جانا ہمارے لئے اتنا تکلیف دہ معاملہ نہیں رہا۔ ہم اپنے اپنے مسائل کے گرداب میں اتنا الجھے ہوئے ہیں کہ قومی حمیت اور قومی غیرت نام کا اسباب جو کبھی ہمارا اثاثہ تھا۔ یہیں کہیں راستے میں لٹ چکا ہے۔
عافیہ کے بارے میں سوچ کر ہمارے اندر اذیت کی کوئی لہر نہیں اٹھتی، کوئی چھبن ہمارے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتی، ضمیر کی کوئی آواز اس سناٹے میں بازگشت پیدا نہیں کرتی کہ آخر کیا ایسی مجبوریاں ہیں کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے معاملات طے نہ پائے جا سکے۔ مگر یہی معاملہ، عافیہ صدیقی کے گھر والوں، ان کی والدہ ان کے بچوں ان کی رہائی کے لئے جدوجہد کرتی ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔
پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کے نعرے لگانے والی قوم اس وقت کورونا کی وبا سے لڑ رہی ہے۔ لیکن کورونا کی لڑائی سے پہلے ہی یہاں محاذ مہنگائی اور مزید مہنگائی بے روزگاری اور مزید بے روزگاری سے اتنا گرم تھا کہ خلق خدا اپنے مسائل میں گرفتار ہے۔ ان کی زندگیاں تو خود ایسے ہیں جیسے کئی نسلوں سے سزا کاٹ رہے ہوں۔
رہے اہل اقتدار اور اہل اختیار۔ تو ان کو عافیہ صدیقی کی یاد اس وقت ستاتی ہے جب وہ اپوزیشن میں ہوں اور انہیں اقتدار کے مزے اڑانے والوں کے لتّے لینا ہوں۔ پھر انہیں غریب بھی یاد آتا ہے مہنگائی کا عذاب بھی محسوس ہوتا ہے اور پھر انہیں عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی ایک حساس قومی معاملہ محسوس ہوتا ہے اور وہ جو اقتدار میں بیٹھ کر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے کوئی کوشش نہیں کر رہے ہوتے وہ انہیں قوم کے غدار دکھائی دیتے ہیں۔ سو اپوزیشن والوں کے اندر عافیہ کا درد ہوتا ہے اور وہی اپوزیشن جب اقتدار کی راہداریوں میں داخل ہو جاتی ہے تو یہ قومی غیرت و حمیت، وہ اقتدار کی راہداری کے باہر ہی چھوڑ جاتی ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو کسی اور سے امید ہو نہ ہو مگر عمران خان سے انہیں بہت امید تھی کہ وہ اقتدار میں آ کر اس معاملے کو جرأت مندی سے عالمی فورم پر اٹھائیں گے مگر ان کی امیدوں کا حال اب یہ ہے کہ وہ عافیہ پر بیتنے والے ظلم کی دہائیاں دیتی رہتی ہیں لیکن اقتدار والوں کی سماعتیں دیوار ہو جاتی ہیں۔ کوئی جواب نہیں آتا پھر وہ سول سوسائٹی کو آواز دیتی ہیں، میڈیا سے وابستہ افراد کو بلاتی ہیں۔ کالم نگاروں کو خطوط بھیجتی ہیں اور اپنا دکھڑا بیان کرتی ہیں۔ یہاں بھی انہیں مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ میں نے کہا نا کہ اب تو ایسی غربت کہ قومی حمیت کا اسباب کہیں راستے میں لٹ چکا ہے۔ ہم پاکستانیوں کے قاتل امریکی ریمنڈ ڈیوس کو تو قانونی اور سفارتی پیچیدگیوں کے سات پردوں سے بھی نکال کر امریکی آقائوں کے سامنے بعد احترام پیش کر دیتے ہیں لیکن عافیہ صدیقی کے معاملے پر قانونی اور سفارتی پیچیدگیوں کے کوہ ہمالیہ ہمارا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
پتھر جیسی سماعتوں کے نام ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی تازہ ترین دہائی یہ ہے کہ امریکی جیلوں میں بھی کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے اور نسلی اور مذہبی عصبیت کی بنیاد پر امریکی جیلوں میں خاص طور پر مسلمان قیدیوں کے ساتھ بدترین تعصب کا سلوک ہو رہا ہے۔ انہیں علاج کی سہولتوں سے محروم کر کے قید تنہائی میں مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قیدیوں کے حقوق کے لئے کام کرتی ایک تنظیم، کولیشن فارسول فریڈم کا ایک لنک بھی خط میں شیئر کیا ہے۔ واشنگٹن میں اس تنظیم کا دفتر قائم ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ایک مسلمان قیدی محمد یوسف کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا ہے خط میں لکھا ہے۔
"محمد یوسف پیر 25مئی کو کورونا وائرس کی پیچیدگیوں کا شکار ہو گئے تھے۔ یوسف کے اگلے سال رہا ہو جانا تھا۔ 37سالہ محمد یوسف کیلی فورنیا میں 11سال کی غیر منصفانہ سزا کاٹ رہے تھے۔ یوسف کو علاج کے لئے کوئی سہولت نہیں دی گئی بلکہ انہیں ہسپتال بھیجنے کی بجائے قید تنہائی سیل میں منتقل کر دیا گیا جہاں ایک سست اور تکلیف دہ موت ان کی منتظر تھی۔ اگر ہسپتال بھیجا جاتا تو محمد یوسف کی زندگی بچ سکتی تھی۔ صرف 4ماہ کے بعد وہ 11سال کی سزا کاٹ کر رہا ہونے والے تھے۔
خط میں آخر میں لکھا ہے کہ عافیہ بھی جرم بے گناہی کی پاداش میں امریکی جیل میں ہے۔ کورونا کی وبا کے خطرات جیلوں تک پھیل چکے ہیں۔ ایسے میں عافیہ کے اہل خانہ کا پریشان ہونا فطری عمل ہے۔ موجودہ حکومت سے ہم نے اس حوالے سے رابطہ کیا۔ بار بار متوجہ کرنے کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ہمیں عافیہ کی خیرو عافیت کی اطلاع نہیں ہے کہ وہ کس حال میں جی رہی ہے۔ مجبورا سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ جہاں پٹیشن زیر سماعت ہے۔ عافیہ صدیقی کی بہن کا یہ خط حکمرانوں سول سوسائٹی، دانشوروں لکھاریوں۔ اخبار نویسوں اور ساری قوم کے نام ہے۔
کالم کی جگہ ختم ہونے کو ہے صرف ایک پیرا گراف کوٹ کروں گی۔ عافیہ کے اہل خانہ کی جانب سے آپ سے رابطہ کرنے کا مقصد حجت پوری کرنا ہے تاکہ حکمران ریاستی حکام سیاستدان بیورو کریٹ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور عوام الناس میں سے کوئی بھی روز محشر اللہ اور رسولﷺ کے سامنے عافیہ پر ہونے والے مظالم پر اپنی خاموشی کا عذر پیش نہ کر سکے۔
اس کے بعد اب کہنے کی گنجائش نہیں رہی۔ میں بطور کالم نگار۔ اپنی حجت پوری کی اور عافیہ صدیقی کی بہن کی رہائی آپ تک پہنچا دی:اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنیہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا ہے!