پہلے گھر کی بیگم صاحبہ اور گھریلو ملازمہ کے درمیان ایک مکالمہ پڑھ لیجیے۔ کام کا موضوع اسی مکالمے سے نکلے گا۔
رشیداں ماسی: باجی، کل میرے گھر چٹکی آٹا بھی نہیں تھا، نہ کوئی پیسا دھیلا نہ پوچھیں کہ کیسے کہیں سے ادھار پکڑا اور پانچ کلو آٹا خریدا۔
بیگم صاحبہ: رشیداں ابھی پندرہ دن پہلے تمہیں دس کلو آٹا کا توڑا لے کر دیا ہے ختم بھی ہو گیا؟ بیگم صاحبہ حیرت سے گویا ہوئیں۔
رشیداں ماسی: باجی ہم غریبوں نے تو صرف روٹی ہی کھانی ہوتی ہے اور تو کچھ ہوتا نہیں۔ آپ لوگ تو ڈبل روٹی، کیک، پھل فروٹ سو چیزیں سارا دن کھاتے ہیں۔ ہمارے پاس، آجا کے صرف روٹی ہوتی ہے اسی سے پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔
بیگم صاحبہ تحریک انصاف کے وزیروں کے برعکس کچھ نرم دِل اور حساس تھیں۔ ماسی کی یہ بات ان کے دل کو لگی کہ کہتی تو ٹھیک ہے، ہمارا آٹا مہینے بھر ختم ہی نہیں ہوتا کہ کبھی، پیزے تو کبھی برگر، سارا دن پھل فروٹ، سلاد کے چونچلے الگ اور اب تو سردیاں ہیں چائے کافی کے دور چلتے رہتے ہیں۔ ڈرائی فروٹ میں اخروٹ، کاجو، پستہ، مونگ پھلی، انجیریں خوبانیاں کھا کھا کر کہاں روٹی کی بھوک لگتی ہے۔ آئے روز پکا پکایا کھانا ہوم ڈلیوری کی صورت آتا تو دس پندرہ دن بعد ویسے ہی باہر کھانا کھانے کا پروگرام بن جاتا ہے۔ بیگم صاحبہ، اپنے اور ماسی کے "لائف سٹائل" کا موازنہ کر کے دل ہی دل میں خجالت زدہ سی تھیں کہ ماسی پھر بول اٹھی۔
رشیداں ماسی: ہم غریبوں نے تو روٹی کھانی ہوتی ہے اب اس کے لیے بھی ہم رُل گئے ہیں، حکومت نے غریبوں کے منہ کی روٹی بھی چھین لی ہے!رشیداں اپنی دُھن میں بولے جا رہی تھی۔ مہنگے آٹے اور روٹی کا مسئلہ صرف رشیداں کا نہیں بلکہ پاکستان کے 22کروڑ عوام کا ہے لیکن ان میں رشیداں جیسے غریب شہر دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے وجود کی تمام توانائیاں مشقت میں جھونک کر صبح سے شام کرتے ہیں، آٹے اور روٹی جیسی انتہائی بنیادی ضرورت کو حکمرانوں نے ان کے لیے ناقابل رسائی بنا کر ان کی زندگیوں کو عذاب سے دوچار کر دیا ہے۔
اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا غریب پر کہ اس کے منہ کا نوالا چھین کر، کچھ ہوس زدوں کی تجوریاں بھری گئیں۔ مہنگے آٹے کی خرید و فروخت سے کوئی تو ہے جو فائدہ اٹھا رہا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اگر گندم یوکرائن سے امپورٹ کرنا ہے تو کہیں گے اس زراعت کو۔ گندم امپورٹ کرنے کا ماحول کس نے بنایا اس ملک میں۔ امپورٹ کے ٹھیکے کس کو ملے؟ ذرا سا غور کریں آپ اس ہوس زدہ اشرافیہ کے چہروں کو پہچان لیں گے۔
گندم پیدا کرنے والے ملک میں گندم کی قلت کا ماحول جان بوجھ کر بنایا گیا ہے۔ گندم کو افغانستان ایکسپورٹ کرنے کی راہیں ہموار کرنے میں ایک ایسی شخصیت کا نام لیا جا رہا ہے جو ہمارے وزیر اعظم کے انتہائی قریب ترین ساتھی ہیں۔ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہے۔ تب سے وہ ساتھی گندم ایکسپورٹ کرنے کے لیے راہیں ہموار کرتے رہے۔ ان کی رائے کو وطنِ عزیز کے زرعی پالیسیاں بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان سے گندم صرف افغانستان ایکسپورٹ ہی نہیں ہوتی بلکہ اسمگل بھی ہوتی رہی ہے جس کے نتیجہ میں ملک میں گندم کی قلت پیدا ہوئی۔ قلت ہمیشہ ذخیرہ اندرونی اور غیر فطری مہنگائی کو جنم دیتی ہے۔ سو نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اس وقت ملک میں روٹی روٹی کی پکار ہے۔ ہر صوبے میں گندم اور آٹے کا بحران مختلف صورتوں میں عوام پر قیامت ڈھا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا میں تو تندورچیوں نے تندوروں کو تالے لگا دیئے ہیں۔ مہنگے آٹے سے سستی روٹی بیچنے سے صاف انکار کر دیا گیا ہے۔ حکومت کے طے کردہ ریٹ پر روٹی بیچنے والوں نے روٹی کا وزن کم کر کے اسے پاپڑ بنا دیا ہے۔ دونوں صورتوں میں عوام کا نقصان ہی نقصان ہے۔
رشیداں جیسے لوگ فاقوں پر اتر آئے ہیں۔ سانس کی ڈوری برقرار رکھنے کے لیے صرف روٹی ہی تو ان کا سہارا تھی جو دن بھر کی تھکا دینے والی مشقت کے بعد پیٹ بھر مل جاتی تو اگلا مشقت بھرا دن گزارنے کا آسرا ہوتا۔
رشیداں جیسے غریب شہر کو مریخ سے آئی ہوئی مخلوق مشورہ دیتی ہے کہ دو نہیں ایک روٹی پر گزارا کرو۔ کوئی فرمان جاری کرتا ہے کہ سردیوں میں لوگ روٹی زیادہ کھاتے ہیں۔ ایک اور طرف سے نمک پاشی یوں ہوتی ہے کہ روٹی کم کھانی چاہیے اس سے موٹاپا ہوتا ہے۔
خدا کی پناہ، کیسی بے حس مخلوق اس عہد میں ہم پر مسلط کی گئی۔ ہم تو کہتے ہیں کہ قوم استغفار کرے اور اللہ سے معافی مانگے جس گناہ کی سزا میں ہم پر ایسے بے حس لوگ مسلط ہوئے۔ کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری۔
سنتے ہیں کہ وزیر اعظم نے آٹا بحران کا نوٹس لے لیا ہے لیکن ہم کیا کریں کہ اب تو وزیر اعظم کے ایسے نوٹسوں سے بھی کوئی امید کی رمق نہیں پھوٹتی۔ اس لیے کہ وزیر اعظم عوام کی تکالیف کا نوٹس لیتے رہتے ہیں۔ حکم صادر فرماتے رہتے ہیں۔ بیانات جاری کرتے رہتے ہیں لیکن انتظامی معاملات نا اہلی کی جس ڈھلوان پر موجود ہیں اس کی رفتار، انداز اور اطوار میں قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا۔
وزیر اعظم اتنے بے بس کیوں۔ گر وہ کرپٹ نہیں تو کرپٹ ٹولے کے ہاتھوں کیوں یرغمال بننے کو تیارہیں۔ اگر ان کے دل میں غریب کا درد ہے تو پھر اس درد کو ان کے طرز حکومت میں نظر آنا چاہیے۔ خالی لفظوں سے لوگوں کے پیٹ نہیں بھرے جا سکتے۔
وزیر اعظم صاحب! آپ کو سوچنا ہو گا کہ اگر آپ کے ساتھیوں کے کاروباری مفاد، غریبوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین لیتے ہیں تو پھر انہیں کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ وہ دوراہے پر کھڑے ہیں۔
ایک طرف یہ لوگ ہیں تو دوسری طرف غریب ترین! وزیر اعظم صاحب انتخاب آپ کا ہے!