چند روز پہلے ایک کالم لکھا کہ بچوں میں مطالعے کی عادت پروان چڑھانے میں گھر کے ماحول کا کردار سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ تعلیمی ادارے اس کے بعد آتے ہیں۔ کتاب پڑھنا بھی ایسی ہی عادت ہے جیسی دوسری عادات، بچہ اپنے گھر میں، اپنے گردوپیش سے سیکھتا ہے۔ وہ اپنے والدین کو کتاب پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ فطری طور پر کتاب کی طرف راغب ہوتا ہے۔
ہم نے اپنے گھر میں یہی ماحول دیکھا اور یاد نہیں کہ کب کتاب سے تعلق بنا۔ ایسا لگتا ہے کہ کتاب سے محبت ورثے میں ملی ہے۔ میں نے اپنے گھر میں کتاب پڑھنے اور کتاب کی قدر کرنے کا ماحول دیکھا۔ گھر میں اخبار باقاعدگی سے آتا تھا، کچھ ذرا بڑے ہوئے تو انگریزی کا اخبار اتوار کے اتوار آنے لگا۔ اس وقت چھپنے والے بچوں کے تقریباً سبھی ماہنامے ہمارے ہاں باقاعدگی سے آتے۔ سکول کے ہوم ورک اور پڑھائی کے ساتھ کہانیاں پڑھنا، ہم سب بہن بھائیوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمیں سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی تھی کہ کہانیاں پڑھنے کو زیادہ وقت ملے گا۔ چھٹیوں میں ہم اپنے رسالوں اور کہانیوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی لائبریری بھی بنا لیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ابو جان نے ہماری لائبریری کا جائزہ لیا، تو اس میں عمر و عیار اور عمران سیریز اور دوسری فکشن پر مشتمل کہانیاں تھیں۔ اگلے روز وہ بچوں کے لیے لکھی گئی اسلامی تاریخ پر مبنی پاکٹ سائز ڈھیر ساری کتابیں لے آئے۔ مسلمان سائنس دانوں کی مختصر لکھی ہوئی سوانح عمریاں۔ حکیم بطلیموس، ابن سینا، ابن خلدون کے نام پہلی بار انہی کتابوں میں پڑھے۔ لائبریری جوکہ بڑے سائز کے پرانے اٹیچی کیس میں قائم کی گئی تھی۔ اب لبالب بھر چکی تھی مگر ہمیں اس وقت ہلکی پھلکی کہانیاں پڑھنے کا چسکا تھا، سو مسلم تاریخ پر مبنی یہ کتابیں ہمیں کافی بور لگی تھی۔ مگر آج سوچتی ہوں کہ جن پریوں، جادو، عمر و عیار کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے والد صاحب نے کس طرح ہمارے مطالعہ کو بڑھانے کے لیے باقاعدہ بچوں کے لیے لکھی ہوئی تاریخی کتابیں ہمیں لا کردیں۔ محدود وسائل اور کتابوں تک محدود رسائل کے باوجود انہوں نے یہ کام کیا۔ اگرچہ اس چھوٹی عمر میں ہم نے اس قدرے خشک کتابوں کو اس دلچسپی سے نہیں پڑھا مگر اس کے باوجود ان کتابوں کا ہمارے پاس ہونا ان کے صفحات کو الٹنا پلٹنا ان کے موضوعات کا نظروں سے گزرنا بھی پانچویں چھٹی کے بچوں کے لیے ایک بڑا ایکسپوژر تھا۔ پھر جیسے جیسے بڑی جماعتوں میں گئے ذوق مطالعہ بھی فکشن سے سنجیدہ کتابوں کی طرف سفر کرتا رہا۔ پہلی بار دنیا کے مشہور و معروف موٹی ویشنل لکھاری ڈیل کارنیگی کے تراجم بھی ابو جان کی کتابوں میں دیکھے۔ خان پور جیسے چھوٹے شہر میں انگریزی رسالوں تک رسائی نہیں تھی، اس کا اہتمام میرے والد اس طرح کرتے کہ جب لاہور سے واپس آتے تو ریڈرز ڈائجسٹ کے پرانے شمارے بھی لے آتے۔
مجھے یاد ہے کہ ارشاد احمد حقانی مرحوم و مغفور کے کالم میں ایک بار ارون دتی راء کے ناول کا تذکرہ تھا۔ God of Small things انہی دنوں آیا اور اس کا خوب چرچا تھا۔ والد صاحب سرکاری کام کے سلسلے میں لاہور گئے تو واپسی پر یہ ناول بھی خرید کر لے آئے۔ گزشتہ کالم میں میں نے ذکر کیا تھا کہ یہاں بیشتر طالب علموں کا اخبار پڑھنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے وہ جن گھروں سے آتے ہیں وہاں کتب بینی اور اخبار بینی کا ماحول ہی نہیں ہوتا۔
اپنے گھر میں، میں نے ہمیشہ سب کو اخبار باقاعدگی سے پڑھتے دیکھا۔ آہ کیا نظر یادوں سے نکل کر معمہ قرطاس پر آ گیا ہے۔ یونانی حسن کی مالک میری والدہ، سردیوں کی دھوپ میں برآمدے میں آرام کرسی پر عینک لگائے اخبار پڑھنے میں منہمک ہیں۔ ادارتی صفحہ پڑھتے پڑھتے ہمیں کہنے لگتی ہیں کہ اخبار میں کالم ضرور پڑھا کرو۔ سارے حالات اور خبروں کا نچوڑ اس میں ہوتا ہے۔ گھر میں منو بھائی، عبدالقادر حسن، ارشاد احمد حقانی، عطاء الحق قاسمی کے کالموں کی باتیں ایسے ہوتی ہیں جیسے ہم روز ان سے ملتے ہیں اور یہ ہمارے بڑے جاننے والے ہیں۔ اس طرح اے حمید کی سلسلہ وار یادیں، بارش، سماوار اور خوشبو ہم سب پڑھتے اور روزمرہ کی باتوں میں اس تحریر کی خوبصورتی کا تذکرہ کرتے۔
میٹرک اور پھر کالج میں خواتین ڈائجسٹ اور شعاع ڈائجسٹ بھی آنے لگے۔ میری والدہ بھی اکثر کہتیں کہ تم بھی کہانیاں لکھو۔ بچوں کے رسائل میں، میں کبھی کبھار لکھتی تھی۔ اس طرح کالج کے دور میں ایک آدھ افسانہ بھی خواتین ڈائجسٹ میں بھیجا۔ اردو ڈائجسٹ تو گزشتہ چالیس برسوں سے ہمارے گھر کا حصہ ہے۔ کتاب اور اخبار سے وابستگی کا یہ ماحول تھا، جو میں نے اپنے اردگرد دیکھا۔ آج اگر سوچوں تو خیال آتا کہ اتنا ہم نے نصاب کی کتابوں سے نہیں سیکھا، جتنا نصاب سے ہٹ کرکتابیں پڑھنے سے سیکھا ہے۔
قدرت اللہ شہاب، عصمت چغتائی، کرشن چندر، منٹو، بانو قدسیہ، رحیم گل، مستنصر حسین تارڑ، افتخار عارف، پروین شاکر، امجد اسلام امجد، حبیب جالب اور کئی دوسرے لکھاریوں اور شاعروں کو سکول اور کالج کے وقت میں ہی پڑھ لیا تھا۔ آٹھویں کلاس میں فیض اور فیض کے اشعار مضمون میں لکھنے پر شاباش ملتی۔ اقبال کی نظمیں تو خیر ہم بہن بھائیوں کو بہت بچپن سے یاد کروائی گئی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ بجلی چلی جاتی تو وقت گزارنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہوتا کہ سب باری باری اقبال کے اشعار اور نظمیں جو ہمیں یاد ہوتیں وہ سناتے۔ پھر ابو جان تاریخ کے قصے کہانیاں ہمیں سناتے۔ تاوقتیکہ کہ بجلی آ جاتی۔
آج ہم والدین کو سوچنا ہو گا کہ ہم اپنے بچوں کو کتاب سے کیسے جوڑیں۔ سوشل میڈیا کے نشے سے نکل کر کتاب سے جڑنا اور اپنے بچوں کو جوڑنا آج کے دور میں اتنا آسان نہیں مگر یقین کریں ناممکن نہیں! آپ سوال کرسکتے ہیں کہ آخر کتاب پڑھنا اور کتاب سے دوستی کرنا کیوں ضروری ہے جبکہ سوشل میڈیا پر معلومات کا ایک سیلاب موجود ہے تو پھر کتاب کیوں؟ کالم کی جگہ ختم ہو گئی ہے سو اس پر بات اگلے کالم میں ہوگی۔