ڈاکٹر عبدالقدیر خان اعلی ترین صلاحیتوں کے غیر معمولی ایٹمی سائنسدان تو تھے ہی لیکن کتاب پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کمال درجے کے منتظم بھی تھے۔ کہوٹہ میں ایک نیا شہر آباد ہوتا ہے۔ بہترین صلاحیتوں کے حامل سائنسدان انجینئرز یہاں کام کر رہے ہیں تو ڈاکٹر عبد القدیر خان کو فکر ہے کہ ان سے جڑے خاندان آسودہ رہیں گے تو ہی یہ جوہرِ قابل اپنے کام پر یکسو ہو سکیں گے۔ اس مقصد کے لیے وہ ان کے بچوں کے اسکول آنے جانے کے لیے بہترین ائر کنڈیشنڈ ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرتے ہیں تاکہ ان کے ساتھی ان فکروں سے آزاد ہوکر ایک بڑے مقصد پر توجہ دے سکیں۔"کہوٹہ ایک شہر بن گیا تھا، اسٹاف کے رہنے کے امکانات اپارٹمنٹس، یوٹیلیٹی سٹور، سوئمنگ پول، ڈیرہ فارم، شادی ہال، کرکٹ گراؤنڈ، فٹبال گراؤنڈ، اسٹور مہیا کیے، میں نے نہ صرف اپنے پروجیکٹ کے اہم مقاصد کی طرف توجہ دی بلکہ اپنے سٹاف کے آرام اور سہولتوں کا بھی پورا خیال رکھا۔" (کتاب سے اقتباس)
محسن پاکستان کمال درجے کے جوہر شناس تھے، انہوں نے ایٹمی پروگرام کے لیے جن ساتھیوں کا انتخاب کیا ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ چمکتا ہیرا ثابت ہوا۔ وہ ایک ایسے سپہ سالار تھے جو اپنے کارواں کے ایک ایک سپاہی کی صلاحیتوں کے دل سے قدر دان تھے۔ اپنے ساتھیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر انہوں نے مختلف حکومتوں سے اپنے ساتھیوں کو پاکستان کے اعلی ترین سول اعزاز دلوائے کیونکہ وہ ایسے ان سنگ ہیروز تھے جو رازداری اور خاموشی کی دیواروں کے پیچھے رہ کر اپنی زندگیوں کو ایک خواب کی تعبیر میں غرق کیے ہوئے تھے۔
محسن پاکستان اپنی خودنوشت میں جو واقعات بیان کرتے ہیں اس سے ان کی شخصیت کے کئی چھپے ہوئے گوشے ہم پہ کھلتے چلے جاتے ہیں۔ وہ دوستوں کے بہت اچھے دوست تھے۔ ایٹمی پروگرام کے روح رواں ہو کر وہ پاکستان کی سالمیت کے انتہائی حساس اور سنجیدہ مقصد سے جڑے ہوئے تھے۔ مغربی طاقتوں کی طرف سے انہیں ہمہ جہت خطرات کا سامنا تھا۔ ان کے اپنی زندگی مسلسل خطرے میں تھی ان تمام حساس حقیقتوں کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان زندگی سے لبریز خوبصورت انسان تھے۔ اپنے ساتھیوں کی خوشی غمی کو دل سے محسوس کرتے اس میں شریک ہوتے ان کی کامیابیوں کو سیلیبریٹ کرتے اور اس معاملے میں کسی بھی طرح نرگسیت کا شکار نہ ہوتے۔ ان میں انتہا درجے کی اعلیٰ ظرفی تھی، وہ اپنی تواضع سے بھری بڑی خوبصورت شخصیت کے ساتھ دوسروں کے دل جیتنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
کتاب پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی ٹیم کے انتہائی اعلی ظرف لیڈر تھے۔ اپنے ایک ساتھی مکینیکل انجینئر اعجاز کھوکھر کی پیشہ ورانہ خوبیوں کی دل کھول کر تعریف کرتے ہیں۔ کہوٹہ لیبارٹریز کے اندر ہونے والے ایسے واقعات کی تفصیل بتاتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کاسفر ایک ایسا طویل اور کھٹن راستہ تھا جس کے ہر قدم پر ایک نئی صبر آزما مسافت کا آغاز ہوتا مگر آفرین ہے ڈاکٹر عبدالقدیر اور ان کے محب وطن ساتھیوں کی کاوشوں پر، جو ہمت نہیں ہارتے یہاں تک کہ اللہ کا کرم انہیں قریہ تعبیر تک لے آتا ہے۔ اس دوران بہت مایوس کن حالات بھی آتے ہیں مگر سالار کارواں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنی ٹیم کے لیے امید اور حوصلے کا سائبان بن جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں 12 ستمبر 1981 میں زبردست زلزلہ آتا ہے اور ہماری بہت سی قیمتی اور حساس مشین تباہ ہو گئیں تمام ساتھی گھبرا گئے اور ناامید ہو گئے کہ اب کیا ہوگا۔
جنرل ضیاء الحق نے بھی پریشانی کا اظہار کیا تو حوصلہ مند میر کارواں نے پرا مید ہوکر کہا ہے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہم اور مشیین بنا لیں گے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ اس کے بعد ہم نے جو مشینیں بنائیں ان میں ایسی ترمیم کی کہ پھر زلزلوں سے کبھی ہمیں نقصان نہ ہوا۔ قدیر خان ان اپنی خودنوشت میں اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ایٹمی پروگرام کبھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچتا اگر ذوالفقار علی بھٹو ان پر غیر معمولی اعتماد کرکے انہیں اس پروجیکٹ کام کرنے کے لیے غیر معمولی اختیارات نہ دیتے، یہاں تک کہ ایک وقت میں ان کے پاس وزیراعظم کے اختیارات بھی تھے اور وہ اپنے ساتھیوں کی ٹرانسفر اور پروموشن کرنے کا اختیار بھی رکھتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق نے ان پر غیر معمولی اعتماد کیا۔ غلام اسحاق خان کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا محبت اور احترام کا گہرا رشتہ تھا اور سابق صدر جوہر شناس تھے اور ہالینڈ سے واپس آئے ہوئے نوجوان سائنسدان کو اپنے بیٹے کی طرح عزیز رکھتے۔ اس کتاب کی ہر سطر دراصل ایک ایسی کھڑکی ہے جسے کھول کر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کی سالمیت کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے خاموشی اور رازداری سے جس خواب کی آبیاری کی وہ خواب محبت کا ایک ایسا راستہ ثابت ہوا جس کے بارے سیانے یہی تنبیہ کرتے ہیں:
رہرو راہ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دو چار بڑے سخت مقام آتے ہیں۔ سچی بات ہے پاکستان کے عاشق کے لیے اس محبت میں دو چار بڑے ہی سخت مقام آئے، مگر اس آزمائش میں بھی محسن پاکستان غیر معمولی ثابت ہوئے۔ اپنوں کی دشنام طرازی پھر سترہ برس کی نیم اسیری کی کلفتیں نہ پچھتاوا نہ لہجے تک میں کسی تلخی کہ شائبہ۔ عمر کے آخری سترہ برسوں میں وہ حسان احمد اعوان کے اس شعر کی تفسیر دکھائی دیے:
میں محبت کروں گا اور اس میں
ہجر آیا تو صبر کرلوں گا۔۔۔ !!
بے شک انہوں نے کمال صبر کیا۔ محسن پاکستان کی ہمہ جہت شخصیت کا ہر پہلو غیر معمولی۔ اور حیران کن ہے!!