پشاور کی پہلی جھلک میں نے اس وقت دیکھی جب رات کی تاریکی کے بطن سے پو پھٹ رہی تھی۔ ابھی پو پھٹنا شروع ہوئی تھی۔ آس پاس اندھیرا پھیلا تھا اور قدیم شہر پشاور ابھی نیند میں گم تھا۔ خیبر روڈ کے آس پاس شہر کی اہم عمارتیں، سرمئی دھند کی لپیٹ میں واضح دکھائی نہیں دیتیں تھیں۔ بس کچھ شاندار پرشکوہ سے عمارتی ہیولے تھے جو مجھے نظر آئے۔ بظاہر پشاور میرے لئے اجنبی شہر تھا۔ مگر اجنبیت کے اس دائرے سے باہر ایک اور دائرہ اپنائیت کا کھینچا ہوا تھا کہ پشاور پہلی بار آنے کے باوجود اس شہر کے ساتھ درد کا رشتہ کئی برسوں سے استوار تھا۔ مجھے اعتراف ہے کہ اس شہر کی فضا میں پہلی بار سانس لیتے ہوئے، میرے ذہن و دل پر اے پی ایس سکول کا سانحہ چھایا ہوا تھا، وہ قیامتیں جو اس شہر بے مثال پر گزر گئیں۔ ان کی گہری ٹیس دل کے ایک حصے سے اٹھ رہی تھی۔ پھولوں کے شہر پشاور میں ایک ایسا گھر بھی تھا۔ جہاں میرے اپنے پیارے لوگ رہتے تھے اور اس کے باورچی خانے میں دم ہوتی چائے کی خوشبو۔ میرے دل میں ایک مشک کی طرح پھیلتی جاتی تھی، میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا کہ پشاور ہمیشہ سے اپنا کیوں لگتا تھا۔ شاید اسی لئے کہ یہاں پھولوں کے شہر میں کچھ مہکتے ہوئے پھول میرے اپنے بھی تھے۔ ایک برس ہونے کو آیا ہے کہ پشاور میں میرے چھوٹے بھائی کی پوسٹنگ ہوئی۔
سچی بات ہے، سرفراز جب پہلی بار پشاور جا رہا تھا تو سب کے دل کچھ ڈرے ہوئے تھے۔ شاید اس لئے کہ اس شہر نے بہت سے دلخراش منظر دیکھے ہیں، مشرف کا دور ایسا گزرا کہ پورے ملک کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخواہ خاص طور پر دہشت گردی کا نشانہ بنتا رہا۔ سو ایک ڈر سا دلوں میں تھا۔ کہیں کسی کونے میں یہ خدشہ بھی تھا کہ الگ زبان اور ثقافت کے پشتون بھائی، پنجاب سے آنے والے کے لئے کیسا سلوک کرتے ہیں۔ مگر یہ اس طرح کے تمام خدشات ایک خوشگوار حیرت میں بدل گئے۔ پشتون اپنی روایتی مہمان نوازی اور کشادہ دلی کے لئے مشہور ہیں۔ تو سچ ہے کہ اللہ نے خاص مہمان نواز روحیں ان کے جسموں میں اتاریں ہیں اور ان کے دلوں کو اجنبیوں کے لئے بہت کشادہ کر دیا ہے۔ بقول میرے بھائی سرفراز قریشی کے روایتی پشتونوں میں پنجاب سے آیا ہوا شخص ویسے ہی پہچانا جاتا ہے۔ تو آغاز میں اس کا قیام سرکاری ریسٹ ہائوس میں تھا، جہاں کا چوکیدار بھی اسے اپنے گھر سے کھانا کھلانے کی دعوت دیتا کہ وہ مہمان تھے۔ پھل خریدتا تو دکان دار محبت سے کہتا: خیر ہے آپ پیسے رہنے دیں آپ مہمان ہیں۔
پشتون بھائیوں کی ایسی مہمان نوازی اور کشادہ دلی کے واقعات سن کر جی خوش ہو جاتا کہ مختلف طرح کے سیاسی مفادات نے یہاں لوگوں کو لسانی گروہ بندیوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ وگرنہ زبانوں کے فرق کے باوجود آپس میں لوگ محبت اور خلوص سے ہی ملتے ہیں۔ اس محبت اور خلوص کا عملی مظاہرہ ہم نے اپنے قیام کے دوران بھی دیکھا، سرفراز اور سارہ کے پشتون ہمسائے پنجاب سے آئے ہوئے، مہمانوں کی ہر ممکن خدمت اور مہمان نوازی کرتے رہے۔ بارش میں بھیگی ہوئی مارچ کی حسین صبح، ناشتے کی میز پر پشتونوں کے روایتی خستہ پراٹھے اور گڑ کے حلوے نے ہمارے دل پر بھی پشتون کی مہمان نوازی کی مہر ثبت کر دی۔ پشاور کی گلیاں سڑکیں اور بازار میں نے بارش کی گیلاہٹ اور دھندلاہٹ میں دیکھے۔ بارش مسلسل ہوتی رہی، مارچ کے مہینے میں ہلکے سویٹر اور شالیں اوڑھنا پڑیں جبکہ لاہور سے ہم چلے تھے تو موسم کافی بدل چکا تھا۔ کم از کم گرم کپڑے واپس الماریوں میں رکھے جا چکے تھے مگر پشاور کا مارچ بارش میں خاصا ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ ایک چیز جس نے مجھے حیرت سے دوچار کیا وہ یہ کہ پشاور کی سڑکوں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے نہیں دیکھے۔ یہاں ہم لاہور میں بزدار حکومت کی مہربانی سے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر دیکھنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ وہاں صفائی کا نظام بہتر لگا ہے۔
پشاور جانے سے بہت پہلے ہی ہمارا دل قصہ خوانی بازار کا اسیر تھا۔ ایک ایسا بازار جس کی قدیم ثقافت اگرچہ اب داستانوں میں ملتی ہے۔ قصہ خوانی بازار کی قدیم گلیوں سے گزرتے ہوئے، آپ، پشاوری قہوے کی بے شمار دکانیں دیکھتے چلے جاتے ہیں۔ پیتل کے قدیم ظروف، سماوار، چینکیں۔ پہلی نظر میں ہی آپ کو گزرے ہوئے وقتوں کی یاد دلاتی ہیں۔ افغانی قالین، سنہری ڈوری اور شیشے سے بنے، شوخ رنگوں کے ملبوسات پشاور کی روایتی واسکوٹ مردوں کی کھیڑی چپل کی پرانی روایتی دکانیں قصہ خوانی بازار کے ہنگام میں۔ خریداروں کو اپنے پاس بلاتی ہیں۔ یہیں ایک مکان پر وزیر اعظم عمران خان کی تصویر کے ساتھ بورڈ لگا تھا۔ کپتان چپل، مشہور ہے کہ ہمارے کپتان وزیر اعظم قصہ خوانی بازار کی اس دکان کی کھیڑی چپل شوق سے پہنتے ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے افغانستان اور ہندوستان کے درمیان تجارت کرنے والے تاجر یہاں قصہ خوانی بازار میں ٹھہرا کرتے۔ روایتی قصہ گو یہاں قصے سنا کر ان کا دل بہلاتے ساتھ ہی قہوے کا دور چلتا رہتا۔ قدیم بازار کی ان قدیم گنجان آباد گلیوں سے گزرتے ہوئے شام ہونے لگی۔ اذان کی صدا بلند ہوئی تو حسن اتفاق سے ہم اس وقت عین مسجد قاسم علی خان کے سامنے موجود تھے۔ پشاور کی یہ تاریخی مسجد قصہ خوانی بازار کے عین بیچوں بیچ، بہت پررونق اور رش والے علاقے میں ہے۔ مسجد قاسم خان کے مفتی پوپلزئی، ہر برس ایک دن پہلے رمضان اور عید کا اعلان کر دیتے ہیں۔ پشاور کے ہر منظر کے ساتھ، کوئی بات، کوئی قصہ کوئی کہانی جڑی ہوئی تھی۔ بس ایک منظر جہاں پہنچ کر میں خاموش ہو گئی۔ ناقابل درد محسوس ہوا اور میری آنکھوں میں نمی پھیل گئی۔ جی ہاں اس وقت میں اے پی ایس سکول کے سامنے کھڑی تھی۔ قلعے کی طرح مضبوط اور بلند دو ستونوں کے درمیان سیاہ آہنی گیٹ پہرے دار اور ستون پر لکھا تھا۔ آرمی پبلک سکول اینڈ کالج ورسک روڈ پشاور۔ !
میری خاموش نگاہی میں ان کہے سوالوں کا شور تھا۔ میں اپنے دل اور روح کی تمام تر گہرایوں کے ساتھ پشاور کو پُرسہ د ے رہی تھی۔