وبا اگر صرف ایک بیماری ہو تو لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس سے محفوظ رہنے کا جتن کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر اس عالمی وبا کے درپردہ، نہ سمجھنے آنے والے پراسرار عوامل کارفرما ہوں تو پھر یہ صورت حال ایک گورکھ دھندہ بن جاتی ہے اور اب تو اس وبا کے موسم میں ایسے ایسے المیے جنم لے رہے ہیں مسائل کی جو صورت پہلے تھی وہی کچھ کم نہ تھی لیکن اب جو کچھ خلق خدا کے ساتھ ہو رہا ہے وہ بہت بھیانک ہے۔
کراچی میں ڈاکٹر فرقان الحق کی المناک موت نے اخبارات سے ٹی وی چینلز۔ اور پھر ٹاک شوز کے پرائم سگمنٹس میں اپنی جگہ بنائی۔ سینئر ڈاکٹر جو کراچی کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ریڈیالوجسٹ تھے اور یقینا خود ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے، اس فیلڈ میں کچھ اثر و رسوخ رکھتے ہوں گے۔ مگر اس کے باوجود جس طرح وہ انتہائی تکلیف کے عالم میں شہر کے ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال تک۔ شٹل کاک بنا دیے گئے اور تمام ہسپتالوں نے ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے باوجود انہیں علاج معالجے کی سہولت دینے سے انکار کیا یہ سنگین معاشرتی اور انسانی المیہ ہے۔ وہ اکھڑتی سانسوں کے ساتھ التجا کرتے رہے کہ انہیں ہسپتال میں بیڈ دلوا دیا جائے۔ انہیں وینٹی لیٹر کی سخت ضرورت ہے جبکہ ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر موجود ہونے کے باوجود انہیں علاج معالجے کی سہولت دینے سے صاف انکار کر دیا گیا۔ کرونا وائرس کا مریض ہونے کی وجہ سے ایمبولینس کا ڈرائیور بھی انہیں اچھوت سمجھتا رہا۔ یوں شہر کراچی میں ایک سینئر ڈاکٹر ہسپتال کے بیڈ اور وینٹی لیٹر کی التجا کرتے کرتے بالآخر جان کی بازی ہار گیا۔
سندھ سرکار کی انکوائری رپورٹ میں کراچی کے سول ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کو اس موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ کہا گیا کہ اس ہسپتال میں اس وقت وینٹی لیٹرز والے کئی بیڈ خالی تھے اور وینٹی لیٹر کی سہولت دینے سے انکار، مریض کی موت کا سبب بنا۔ سانحہ اور المیہ وقوع پذیر ہونے کے بعد اس قسم کی انکوائری رپورٹ لواحقین کا منہ بند کرنے کے لئے ہوتی ہے اور اس کی اہمیت ردی کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر فرقان الحق کے ساتھ ہونے سفاک سلوک، جو ان کی موت کا سبب بنا۔ خبروں میں آ گیا، موت پر سرکار کی انکوائری رپورٹ بھی آ گئی اور یوں معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جب سے کورونا کا قہر پڑا ہے کسی اور بیماری کی ایمرجنسی میں ہسپتال جانے والے مریضوں کے ساتھ ایسا ہی سفاکانہ سلوک اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ ہسپتال مریضوں کو اٹینڈ ہی نہیں کر رہے۔ اگر کوئی مریض کسی ایمرجنسی میں ہسپتال جاتا ہے تو ڈاکٹر اسے اچھوت سمجھ کر اس کے قریب نہیں آتے کہ مبادا یہ مریض کورونا کا شکار نہ ہو۔ یا پھر کسی اور بیماری کی تکلیف سے۔ دوچار مریض کے لواحقین سے کہتے ہیں پہلے اس کورونا کا ٹیسٹ کروائو اور ایمرجنسی میں جانے والا مریض جسے فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کے سامنے تڑپتا رہتا ہے اور جان دے دیتا لیکن ہسپتال طبی امداد سے انکاری رہتے ہیں۔ دوسرے شہروں کے ہسپتالوں کا یقین سے نہیں کہہ سکتے لیکن کم از کم لاہور میں ہی ہو رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک جاننے والی فیملی کے ساتھ یہی المیہ ہوا۔ ان کے والد کو ہارٹ کے پرابلم کے ساتھ ایک پرائیویٹ ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان سے پہلے کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ طلب کی اور پھر طبی امداد دینے سے انکار کر دیا۔ یہاں سے وہ زید ہسپتال اور ایک دوسرے پرائیویٹ ہسپتال لے کر گئے ہر جگہ یہی سلوک ہوا اور یوں مریض دم توڑ گیا۔
آج ہی کی اخبار میں دبپالپور سے بھی ایسی ہی افسوسناک خبر آئی ہے کہ گلے اور سانس کی تکلیف میں اوکاڑہ ہسپتال لے جایا جانے والا مریض کو ڈاکٹروں نے اچھوت سمجھا اور کوئی طبی امداد نہ دی۔ مریض دم توڑ گیااور اس کی تدفین بھی اچھوت سمجھ کر کی گئی۔ مگر بعد میں اس کا کورونا کا ٹیسٹ منفی آیا۔ لغو اور بے بنیاد کورونا کے مریض بنانے کے بعد اس کے گھر والوں کو بھی قرنطینہ بھیج دیا گیا۔ کوئی ریاست، انتظامیہ کوئی، حکومت کوئی ہے، یہاں پر جس سے سوال کیا جائے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، کس کے حکم پر ہسپتالوں نے دوسری بیماریوں کا علاج کرنا بند کر دیا ہے۔؟
کیا یہ طے شدہ ایس او پیز ہیں کہ ایک مریض اگر ایمرجنسی میں کسی ہسپتال لایا جاتا ہے تو اسے اچھوت سمجھ کر تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔؟ مریض کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہو اور اس سے کورونا کا ٹیسٹ مانگا جائے۔؟ یا پھر ازخود اسے کورونا کا مریض ڈیکلیئر کر کے اسے اور اس کے خاندان کو اچھوت بنا دیا جائے۔؟ اور پھر وہ ڈاکٹر فرقان الحق کی طرح بے بسی سے تڑپتا ہوا وینٹی لیٹر پکارتا ہوا جان دیدے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر جو چاروں صوبوں کے درمیان ایک رابطے کا پت بن کر کووڈ 19سے پیدا ہونے والی صورت حال کا پل پل جائزہ لے رہا ہے کیا ممکن ہے کہ اتھارٹیز اس صورت حال سے بے خبر ہوں۔ دیگر بیماریوں سے مرنے والوں کو کورونا کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے تو کیا اس طرح کورونا کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار قابل بھروسہ ہوں گے۔؟
یہ بہت اہم سوالات ہیں اور لوگ اب یہ سوال حکومت اور ان کے اداروں سے پوچھ رہے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ بھی سرکار کی طرف سے کوئی طے شدہ ایس او پیز ہے کہ ہسپتالوں میں بس کورونا دھمال ڈالے گا اور دیگر بیماریوں کینسر، بلڈ پریشر، شوگر، دمہ، ہیپاٹائٹس کا علاج روک دیا گیا ہے۔؟ ایمرجنسی میں مریض آئیں گے، تڑپتے رہیں گے ڈاکٹر انہیں ہاتھ نہیں لگائے گا۔ ان سے کرونا کا ٹیسٹ طلب کرے گا۔ مریض ناامید ہو کر شہر کے کسی اور ہسپتال جائے تو وہاں بھی اس کے ساتھ یہی سلوک ہو گا۔ ڈاکٹر فرقان کی طرح اب آئے روز مریض بے بسی سے دم توڑ رہے ہیں۔ ایسی موت کو ہم طبعی موت کہیں گے یا پھر کچھ اور۔؟ لکھاری کا المیہ تو یہ ہے کہ شعیب بن عزیز کا مشہور زمانہ شعر بھی اس صورت حال پر منطبق نہیں ہوتا:
کوئی روکے یہاں دست اجل کو
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
گمان ہوتا ہے کہ یہاں دست اجل کو اپنی کارگزاری کرنے کی باقاعدہ سہولت دے دی گئی ہے۔ !!