ایک وقت تھا کہ زندگی میں اخبار، ریڈیو، شاعری اور مشاعرے سب کچھ شامل تھا۔
میرے اخبار کا دفتر ڈیوس روڈ پر واقع تھا، چند منٹ کی واک پر شملہ پہاڑی پریس کلب سے ہوتے ہوئے، ریڈیو پاکستان پہنچ جاتی۔ ہفتے میں دو دن، کرنٹ افیئرز کا لائیو پروگرام کرتی جو مختلف میزبانوں اور مہمانوں کے ساتھ سارا ہفتہ جاری رہتا تھا۔ میں دو دن یہ پروگرام بطور ماڈریٹر، معروف معنوں میں بطور میزبان کیا کرتی تھی۔
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ مرحوم(ان کے نام کے ساتھ مرحوم لکھتے ہوئے عجیب لگا۔ اللہ مغفرت کرے) بھی اکثر ہمارے پروگرام میں بطور تجزیہ نگار تشریف لاتے۔ ڈاکٹر مغیث کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں میڈیا سٹڈی کو انہوں نے نئی جہتوں سے متعارف کروایا۔ ماس کمیونیکیشن کی جدید تعلیم کی بنیادیں انہوں نے پاکستان کی درسگاہوں میں رکھیں۔ آج الیکٹرانک اور پرنٹ صحافت میں کام کرنے والے بیشتر معروف نام ان کے شاگرد رہے ہیں۔
ایک روز میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے پڑھائے ہوئے طالب علم جب اخبار میں انٹرن شپ کے لیے آتے ہیں انہیں دیکھ کر سب سے بڑی مایوسی یہ ہوتی ہے کہ صحافت کے طالب علم ہو کر انہیں اخبار پڑھنے سے کوئی لگائو نہیں ہوتا۔ کتاب پڑھنا تو دور کی بات ہے۔ بعد احترام میں نے ان سے عرض کیا کہ کیا یہ صحافت کے اساتذہ کی ناکامی نہیں ہے کہ آپ اپنے طالب علموں کو اخبار، کتاب سے جوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ڈاکٹر مغیث مسکرائے اور بولے کہ مطالعے کی عادت ایک دن یا دو دن میں کبھی پروان نہیں چڑھتی۔ ہم اپنے تئیں پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے طالب علم روزانہ کی بنیاد پر اخبارات کا مطالعہ کریں خبروں سے لے کر کالم، سب ان کی نظر سے گزریں لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اگر اوائل عمری میں مطالعہ عادت میں شامل ہے تو ہی بعد کے برسوں میں کتاب اور اخبار سے وابستگی ممکن ہو گی۔ تعلیمی اداروں سے زیادہ اس میں گھر کا ماحول زیادہ اہم ہے۔
اب میں آپ کو اس کاپس منظر بتاتی ہوں کہ میں نے صحافت کے طالب علموں کے حوالے سے یہ سوال مغیث صاحب سے کیوں کیا اور کیوں مجھے ان طالب علموں سے مل کر مایوسی ہوئی۔ میگزین میں کام کے دوران مجھے ایسے کئی طالب علموں کو انٹرن شپ میں رہنمائی کرنے کا موقع ملا جواخبار میں اپنے مضامین چھپوانے اور انٹرن شپ کرنے آتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر چار مضمون اخبار میں چھپ گئے تو پھر ان کی بنیاد پر میڈیا میں نوکری حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔ ڈگری کے حصول کے لیے بھی انٹرن شپ ضروری تھی۔ ایک روز ایک طالبہ اپنا مضمون میرے پاس چھپوانے کو لے کر آئی۔ مضمون دیکھا تو مجھے حیرت کا جھٹکا لگا گزشتہ ہفتے، اخبار میں چھپنے والا میرا رائٹ اپ حرف بہ حرف نقل کر کے، طالبہ نے اوپر اپنا نام لکھا ہوا تھا۔
مضمون چونکہ پچھلے ہی ہفتے شائع ہوا تھا اس لیے میرے پاس اخبار بھی پڑا ہوا تھا میں نے پوچھا کہ یہ آپ نے خود لکھا ہے۔ جی میم:طالبہ نے جواب دیا۔ میں نے ساتھ ہی اخبار نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ اتفاق سے آپ کا لکھا ہوا مضمون پچھلے ہفتے ہمارے ہی اخبار میں چھپ چکا ہے۔
ویسے یہ لطیف طنز بھی طالبہ کے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ طالبہ نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں نے کہا آپ اس مضمون کو پڑھیں۔ آپ نے اخبار سے یہ مضمون نقل کیا اور اس اخبار کے دفتر میں اپنے نام سے چھپوانے کے لیے لے آئی ہیں۔
واقعے کا کلائمیکس یہ ہے کہ جب میں نے اس طالبہ سے پوچھا کہ یہ مضمون سعدیہ قریشی نے لکھا ہے۔ آپ کبھی ملی ہیں ان سے?تو اس نے زور دار انداز میں اپنا سر نفی میں ہلایا اور میری تو اس صورت حال پر ہنسی چھوٹ گئی۔ غصہ اور حیرت الگ کہ صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں کیسے کیسے شاہکار موجود ہیں۔ میں نے اسے بتایا?بی بی جس کا مضمون آپ نے حرف بہ حرف نقل کیا ہے۔ وہ آپ کے سامنے ہی موجود ہے۔ کیا دلچسپ صورت حال ہے اندازہ لگائیں کہ میرے ہی پاس میرا مضمون نقل کر کے چھپوانے کو آپ لے آئی ہیں۔
انٹرن شپ کے لیے آنے والے طالب علموں کو میں نے کم و بیش اتنا ہی "قابل" پایا۔ مگر یہ واقعہ تو ایک کلاسیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ کچھ عرصے سے مجھے ایسی ای میلز تواتر سے آ رہی ہیں کہ ہم کیسے اخبار میں لکھ سکتے ہیں رہنمائی کریں۔ کچھ نوجوان اپنی تحریریں بھی بھیج دیتے ہیں کہ ان پر رائے دیں۔
انشاء اللہ اس موضوع پر چند کالم ضرور لکھوں گی۔ آج کا کالم تو ایک پس منظر کے طور پر لکھا ہے کہ اگر آپ کتاب اور اخبار سے دور بھاگتے ہیں تو پھر آپ کا صحافت میں کیا کام ہے۔
الیکٹرانک میڈیا پر بھی اس وقت زبان و بیان کے حوالے سے جو زوال پذیری نظر آتی ہے اس کے پیچھے یہی وجوہات ہیں کہ صحافت کو صرف بولنے سے تعبیر کر لیا گیا ہے جو نان سٹاپ بولتا رہے، پراعتماد ہو۔ تو وہ الیکٹرانک میڈیا میں کامیاب ہے۔ یہ خوبیاں کسی حد تک اپنی جگہ ضروری ہیں لیکن آپ کا کام اس وقت تک معیاری نہیں ہو سکتا جب تک آپ خود کو مطالعے سے نہیں جوڑیں گے۔ اردو ادب کی نئی پرانی، اعلیٰ ادنیٰ کلاسیک، سب کتابیں پڑھیں۔ اگر آپ لکھنا چاہتے ہیں تو پڑھنا اس کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا ضروری کھیت اگانے ے لیے اس میں بیج ڈالنا ضروری ہے۔
انگریزی ادب بھی پڑھیں۔ اگر انگریزی زبان سے مسئلہ ہے تو اچھی کتابوں کے تراجم بھی ملتے ہیں۔ آپ تراجم پڑھ لیں بلکہ جس بھی زبان کے ترجمہ میسر ہوں انہیں ضرور پڑھیں۔ کتابیں خریدیں، خریدی ہوئی کتاب سے الگ تعلق بنتا ہے اسے ہم پڑھنے کے لیے وقت بھی نکالتے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ امریکی ناول نگار?ولیم فاکنر کے الفاظ پر کالم کا اختتام کرتی ہوں۔
Read, Read Read Every thing trash, classics، good and bad and see how they do it. just like a carpenter, who works as an apprentice and studies the masters.