سال کے بارہ مہینے میرے لیے بارہ مختلف مزاج کے دوستوں کی طرح ہیں، جیسے آپ اپنے ہر دوست سے مختلف طرح سے ملتے ہیں کیونکہ ہر ایک کی شخصیت کے گرد مختلف طرح کی وائبز کا دائرہ ہوتا ہے۔ ہر دوست سے ملنے کی فریکوئنسی اور اس سے کنیکٹ کرنے والی لہریں مختلف ہوتی ہیں۔ یہ جو سال کے بارہ مہینے ہیں، یہ بھی میرے لئے ایسی ہی 12 سہیلیاں ہیں جو الگ مزاجوں کی مالک ہیں۔ ہر ایک سے مجھے اس کے مزاج اور ناز نخروں کے مطابق بات کرنی پڑتی ہے جیسے کوئی بہت عزیز مگر نخریوالی سہیلی ہو تو پھر آپ کو اس کے مزاج کے مطابق ڈھلنا پڑتا ہے۔
کہتے ہیں کہ وقت کا گزرنا بھی بھید سے بھرا ہے خو، شی کا وقت گزرتے پتہ ہی نہیں چلتا ہے اداسی ٹھہر جاتی ہے دکھ پڑاؤ ڈال لیتے ہیں اور مشکل وقت کا ایک لمحہ صدیوں پر بھاری ہوتا ہے، وقت کا یہ بھید ان مہینوں کے اندر بھی چھپا ہوا ہے۔ اس مہینوں کے مزاج ایسے ہی ہیں، کچھ ایسے تیز مزاج کہ تیس دن کا مہینہ ساٹھ دنوں کا ہو جاتا ہے اور کچھ مہینوں کے مزاج اتنے نرم ملائم۔ ان کے آنے سے فضا میں ایسی سرشاری بھر جاتی ہے کہ جی چاہتا ہے تیس دن کا مہینہ ساٹھ کا ہو جائے لیکن مہینہ اس سرعت سے گزرتا ہے کہ تیس دن تین دن لگتے ہیں یعنی تیری قربت کے لمحے پھول جیسے مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں۔
پھول کھلنے کا مہینہ مارچ بھی ایسا ہی ایک سجری سویر جیسا مہینہ ہے۔ جواکتیس دنو ں کے باوجود بھی، مگر پھولوں کی عمریں مختصر ہیں، کااحساس دے جاتا ہے، من بھاونا مارچ ایسا ہے جیسے نیند کے بعد آنکھیں کھولتے ہوئے ہوئے ننھے بچے کا چہرہ جب وہ اپنی ماں کو دیکھ کر مسکراتا ہے۔
تو جیسے بہار زمین پر اترتی ہے،
جیسے سکول سے لوٹتاہوا ایک پرجوش بچہ
جیسے محبت کے اولین دن ہوں،
آس پاس کی ہر شے اسی ایک
کیسری رنگ میں رنگ جائے
جیسے خشک ٹہنی سے پھوٹتے ہوئے رنگ
رنگوں کے پیراہن میں اتری ہوئی بہار
اور بہار میں چہچہاتے ہوئے خوشنوا پرند
مارچ تتلی کے پروں پر لکھا ہوا مہینہ نرماہٹ سے بھرا۔ جیسے احمد مشتاق کے شعر کا کوئی مصرع ہو۔ صادقین اور چغتائی بے رنگ منظروں کے کینوس پر رنگوں کے شاہکار تخلیق کرتے ہیں۔ تو روش روش۔ ہزار رنگوں کے باغ کھل اٹھتے ہیں۔
مارچ تو مہینوں کی رنگولی ہے۔ میرے پر بہار مارچ کا وسط گزر چکا ہے تو میں اس تاخیر سے کیوں لکھ رہی ہوں، مارچ ہمیشہ سے ایسا ہی میرے لیے۔ کسی نئے زخم کسی نئی خوشی کسی نئی امید کا مہینہ ہے جسے میں دیانت بھری توجہ کے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں۔ عورت کے نام سے جو عالمی دن موسوم ہے وہ بھی مارچ ہی میں منایا جاتا ہے۔ اس کے لیے مارچ سے بہتر کوئی مہینہ نہیں ہو سکتا کہ عورت بہار کا استعارہ ہے۔ عورت زندگی رنگ اور امید کی علامت ہے۔ عورت کا یہ دن کچھ عرصے سے بدصورت نعروں کی نذر ہونے لگا ہے۔ ان نعروں سے اتنی گردوغبار اٹھتی ہے کہ میرے پر بہار مارچ کا چہرہ دھندلا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پر دونوں اطراف کے نظریات کی ایسی گرد ہوتی ہے کہ الامان!حقیقت یہ ہے کہ مارچ کا آغاز ہونے سے پہلے ہی عورت مارچ کا متوقع ہنگام فضامیں محسوس ہونے لگتا ہے اور تتلی کے پروں پر لکھے ہوئے اس مہینے کی نرماہٹ اور اس کی دلکشی ماند پڑنے لگتی ہے، سو اس بار ارادہ کر لیا تھا کہ مارچ کا پہلا ایک ڈیڑھ ہفتہ سوشل میڈیا سے دور رہنا ہے۔
میں نے ایک ہفتے کے لیے اپنا فیس بک اکاؤنٹ اپنے موبائل فون سے ڈیلیٹ کردیا، ہمارا بہت سارا وقت فیس بک کی نذر ہو جاتا ہے اور ہمارے آس پاسں بکھری ہوئے بہت سے خوبصورتیاں جنہیں ہماری توجہ درکار ہوتی ہے وہ توجہ سے محروم رہ جاتی ہیں۔ میڈیا پر مختلف پوسٹیں پڑھتے اور اس پر کمنٹ کرتے کرتے ہم اپنے آپ سے اور اپنے اندر کی دنیا سے بچھڑ جاتے ہیں اور وہ خالص تنہائی جس میں آپ خود سے بات کر سکتے ہیں میسر نہیں آتی یہاں تک کہ کتاب پڑھنے کے لئے جو دھیان اور توجہ درکار ہوتی ہے وہ بھی میسر نہیں ہوتی، سو اس بار ارادہ باندھ کر فیس بک اور عورت مارچ کے ہنگام سے خود کو دور رکھا۔ وہ سب کتابیں اپنے آس پاس اکٹھی کیں جو وقت نہ ملنے کے باعث نظر انداز ہو رہی تھی، کچھ نئی کتابیں خریدیں ور ان کے ساتھ وقت گزاراپھولوں کی پنیریاں گھر میں لگائیں، صبح کے اوقات میں خاص طور پر پھولوں اور سبزے میں وقت گزارنے کو ترجیح دی۔ باغ کی سیر کو گئے پرندوں کی چہچہاہٹ سے سماعتوں کو رسیلا کیا۔ کچھ رنگ اندر سے پھوٹے تو نہیں کینوس پر اتارا۔ امرتا پریتم کی کتاب محبت نامے اور کیٹس کے فینی براؤن کو لکھے ہوئے محبت کے خطوط بار دگر پڑھے۔ اپنی پرانی نظموں کو دہرایا نئی نظموں اور غزلوں کے کچھ مصرعے تتلیوں کی طرح اڑتے ہوئے سوچ کے ویرانے میں آئے تو میں نے انہیں جانے نہیں دیا۔ ان کے رنگوں کو کاغذ پر اتار لیا کہ میرے پاس وقت تھا دیانت بھری توجہ تھی۔
میرے آس پاس مارچ کی نرماہٹ بکھری ہوئی تھی، کچھ خواب تھے کچھ زخم تھے، کچھ خوشیاں تھیں اورلا محدود شکر کے احساس سے لبریز ایک دل تھا۔ میرے تتلیوں کے پروں پر لکھا ہوا مہینہ مارچ تھا!پس تحریر:میرے بہت سے قارئین نے مجھے ای میل کر کے مجھ سے استفسار کیا کہ میں نے عورت مارچ کے حوالے سے کیوں نہیں لکھا۔ یہ کالم اس سوال کا جواب ہے۔