جس روز یہ کالم آپ تک پہنچے گا، ایک نیا نکور، اُجلا، تازگی سے بھرا سال 2020ء کا پہلا دن یکم جنوری طلوع ہو چکا ہو گا۔
سال 2019ء اب ایک سال گزشتہ ہے۔ ہم نے اس سال میں کیا حاصل کیا اور کیا حاصل کرنے میں ناکام رہے یہ سب اب ماضی کی داستان ہے۔ گزشتہ ناکامیوں پر پچھتانے اور آہیں بھرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ایک ایسی جمع پونجی ہے جو خرچ ہو چکی اور جس کی واپسی اب ممکن نہیں ہے۔ سو اب نا امید کی دُھند اور پچھتاووں کی گرد سے باہر نکل کر نئے سال کا استقبال کریں اور ایک نئی امید اور نئے جذبے کے ساتھ اپنے ہر دن کو جئیں۔
جس روز میں یہ کالم لکھ رہی ہوں، سال 2019ء کا آخری دن ہے۔ 31دسمبر کا یہ یخ بستہ دن مجھے گزشتہ 365 دنوں کی پوری کہانی سنانے کو بے تاب تھا اور اس کی خواہش تھی کہ میں آج کے روز پچھتاووں، نامیدیوں کی بات کروں۔ ان خوابوں کا نوحہ پڑھوں جو تبدیلی کے اس نئے موسم میں این آر او پلس سے ٹکرا کر چکنا چور ہو گئے لیکن میں نے ایسے تمام موضوعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مناسب ہی سمجھا کہ نئی امیدوار نئے جذبے کے ساتھ اپنے تمام قارئین کے ساتھ مل کر سال کی پہلی صبح کا خیر مقدم کیا جائے اور اپنے پڑھنے والوں کو زندگی کے سفر کو کامیاب، ثمربار اور خوبصورت بنانے کے لیے نئی تحریک دی جائے۔"After all tomorrow is another day"ہر نئی صبح ایک نیا آغاز ہوتی ہے۔ یہ تو پھر ہم 2019ء سے 2020ء میں داخل ہوئے ہیں۔ ہم اس بحث سے گریز کرتے ہیں کہ صرف ہندسے بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ ایسے لوگوں کا خیال ہے جو اپنی زندگی میں جمود کا شکار ہیں۔ جو لوگ ہر لمحہ اپنی زندگی کو پہلے سے بہتر بنانا چاہتے ہیں، ان کے لیے ہر نئی صبح بھی ایک تازہ اور نیا آغاز ہوتا ہے۔
میں اپنی زندگی میں ہمیشہ سیکھنے اور سکھانے پر یقین رکھتی ہوں، میرے نزدیک زندگی سیکھنے اور سکھانے ہی کا ایک عمل ہے۔ جس میں آپ زندگی کے خوبصورت جذبوں کو اپنی ذات سے لے کر دوسروں تک پھیلاتے ہیں۔ افریقی شاعرہ مایا اینجلز کو کہی ہوئی بات سے میں سو فیصد متفق ہوں کہ Do the best you can, untill you know better. Then when you know better, do better. اور یہ تبھی ممکن ہے جب آپ سیکھنے پر یقین رکھیں۔ پرانی عادتوں کو چھوڑ کر نئی اور بہتر عادات اپنانے کے ہنر سے آگاہ ہوں لیکن اگر آپ پرانے بے ڈھنگے طریقوں سے ہی زندگی گزارتے جائیں اور آپ کے اندر سیکھنے کے سارے دروازے بند ہوں تو پھر براہِ کرم اپنی زندگی کے بارے میں بہتر خواب دیکھنا چھوڑ دیں کیونکہ زندگی میں بہتری اور کامیابی کے لیے ہمیں لمحہ سیکھنے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے اور سیکھنے کا یہ عمل ہے کیا۔ یہی کہ خود کو بہتر اور مزید مزید ہونے کے پراسس سے گزارتے رہیں۔ یہ پراسس اس وقت ممکن نہیں ہوتا جب تک آپ اپنے ان عادتوں سے چھٹکارا پانے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو آپ کی کامیابی ور بہتری کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ایک طالبہ میرے پاس آئی، وہ کچھ رہنمائی لینے کی خواہش مند تھی۔
مسئلہ یہ تھا کہ پڑھائی کے ٹارگٹس مکمل نہیں ہوتے حالانکہ رات رات بھر پڑھائی کرتی ہوں۔ نیند بھی پوری نہیں ہوتی۔ میں نے اس کے شب و روز جاننے کے لیے چند سوال کیے تو معلوم ہوا کہ عادت پڑ چکی ہے کہ رات ہی کو پڑھنا اور وہ بھی دس گیارہ کے بعد جب تمام گھر والے سو چکے ہوں جبکہ دن بھر میں کالج سے آنے کے بعد سارا وقت سوشل میڈیا سے جڑی مختلف، بے معنی، مصروفیات میں گزرتا ہے۔ دوستوں کے وٹس ایپ سٹیٹس پر کمنٹ کرنے، اپنے نت نئے سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے، میک اپ کی ویڈیوز دیکھتے، کپڑوں کی ڈیزائننگ پر مشتمل مختلف ویب سائٹس دیکھتے۔ سکرین شارٹس لیتے۔ سہیلیوں کے ساتھ چٹ چیٹ کرتے۔ اسائمنٹس کا ڈھیر لگا ہو مگر رات دس گیارہ سے پہلے کتاب نہیں کھولنی کیونکہ عادت نہیں ہے۔ مجھے اس کا مسئلہ سمجھ آ چکا تھا کہ کیونکہ نیند ہی پوری نہیں ہوتی اور پڑھائی کے ٹارگٹس بھی مکمل حاصل نہیں ہوتے۔ مسئلے کا حل بہت واضح اور آسان تھا کہ اپنی اس عادت کو بدلیں کہ صرف رات کو پڑھنا ہے۔ جس نے اسے یہ سمجھایا تو وہ طالبہ بولی۔ مجھے دن کو پڑھنے کی عادت ہی نہیں ہے۔ ٹھیک ہے لیکن وہ عادتیں جو ہماری کامیابی اور بہتری کی راہ میں رکاوٹ ہوں، انہیں بدلنا ضروری ہے اور عادتیں بدلی جا سکتی ہیں۔
دن کا قیمتی وقت سوشل میڈیا پر ضائع کر دینا۔ ایک ناکام کر دینے والی عادت۔ جب تک آپ اس وقت کو اپنی پڑھائی اور اسائنمنٹس مکمل کرنے کے لیے استعمال نہیں کریں گے آپ کا مسئلہ قطعاً حل نہیں ہو گا۔ رات کو روزانہ دو، اڑھائی بجے تک جاگنا، آہستہ آہستہ ہماری صحت کو خراب کرنے لگتا ہے۔ رات کو جاگنے والے اور دن کو سونے والے فطرت کے اصولوں کے خلاف چل کر بہت سی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کو دعوت دیتے ہیں۔
عادات کو بدلنا ہرگز آسان نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود عادتیں بدلی جا سکتی ہیں اور مصمم ارادے کے مالک افراد اپنی خراب عادتوں کو اچھی عادات سے بدلنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو ارادے کی پختگی اور مستقل مزاجی درکار ہے اور ساتھ ہی یہ احساس کہ جو منفی عادت میں چھوڑنا چاہتا ہوں وہ زندگی میں میرے لیے کتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور جو مثبت عادت میں اپنانا چاہتا اس کا کس قدر فائدہ مجھے اپنی زندگی کے آنے والے سالوں میں ملے گا۔ Self accountibility اور Self realization کا عمل کہہ سکتے ہیں۔ یہ چیز کسی میں پیدا ہو جائے تو پھر عادت کو ایک ہی دن میں بدلا جا سکتا ہے۔ یہ جو ہم ہر سال نیو ایئر ریزرولیوشن?نئے سال کے اراد لکھتے ہیں یہ منفی عادات چھوڑنے اور مثبت عادات اپنانے ہی کا تو عمل تو ہے۔ مثلاً اگر آپ وزن کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس کے لیے بھی کچھ عادتیں چھونی پڑیں گی اور ان کی جگہ وہ عادتیں اپنانی پڑیں گی جو آپ کو وزن کم کرنے کے لیے معاون ثابت ہوں۔ مثلاً میں آپ کے ساتھ اپنا ذاتی تجربہ شیئر کرتی ہوں۔ میں نے بہت سی عادتوں کو نئی اور بہتر عادتوں کے ساتھ ری پلیس کیا ہے اور یقین جانیں ایسا کرنا ممکن ہے۔ صرف سیلف ریئلائزیشن کے ساتھ ارادے کی پختگی درکار ہے۔