ایک تھی مصباح۔ معصوم سے خدوخال والی، پیاری سی مصباح، جس کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ غربت کے مکان میں پیدا ہوئی، غربت کے جھولے میں پروان چڑھی۔ گھر کی ٹوٹی ہوئی دہلیز سے لے کر زنگ آلود بکسوں اور خالی برتنوں میں ہر طرف غربت بھوک اور ننگ ناچتی پھرتی تھی۔
غربت سہتے سہتے۔ مصباح کی ماں بھی مر گئی، تو ابا اسے لاہور شہر کے ایک امیر کبیر گھر میں چھوڑ آیا۔ گھر میں تو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں ملتا۔ سوچا ہو گا کسی امیر کے گھر گندے برتن دھولے گی۔ جھاڑو پوچا کرے گی تو مصباح کو پیٹ بھر کھانا میسر آئے گا۔
دو ماہ مہینے پہلے کی بات ہے۔ 12سالہ مصباح کو ابا نے کہا کہ تیار ہو جائو۔ میں تمہیں شہر لے کر جاتا ہوں۔ اونچا سا فراک پاجامہ اور پلاسٹک کے جوتے پہن کر ایک سوٹ شاپر میں ڈالا اور مصباح خوشی خوشی تیار ہو گئی، جھلّی نہ ہو تو سمجھی تھی کہ جیسے میلے پر جا رہی ہو۔ بس پہ بیٹھ کر لاہور شہر پہنچے۔ اتنا بڑا شہر تھا اور جس گھر ابا اور ایک اور بندہ اسے لے کر گئے وہ ایسا تھا جیسے کوئی محل ہوتا ہے۔ اس نے ایک لمحے کو دل ہی دل میں سوچا کہ جیسے وہ کوئی سچ مچ کی شہزادی ہو۔ اتنے بڑے محل میں رہے گی۔ پھر سوچا یہاں تو کھانے کو بھی بہت کچھ ملے گا۔ ڈھیر ساری روٹی۔ ڈھیر سارا سالن، پھر میں خوب کھائوں گی، پیٹ بھر کے، مصباح کی حسرت بھری آنکھیں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سپنے بن رہی تھیں۔ ایک بیگم اور صاحب نے ابا کو چند ہزار تھما دیے تھے اور اس کی بٹیا رانی کو لے کر گھر کے اندر چلے آئے۔ مصباح نے جاتے ہوئے ابا کو نم آنکھوں اور تیزی سے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ دیکھا تھا۔ ابا نے یقین دلایا تھا کہ ہر ہفتے فون کروں گا۔ بیگم صاحبہ کا نمبر بھی ابا نے لے لیا تھا۔ بس پھر مصباح کو اس محل میں دو مہینے گزر گئے، دو مہینے کیا تھے کرب اور اذیت کی دو صدیاں تھیں۔ مصباح نے اپنے گھر میں غربت بھوک ننگ تو دیکھی تھی لیکن ظلم، تشدد، زیادتیاں، مارپیٹ ہولناکیاں نہیں دیکھی تھیں۔ بارہ سالہ کی کم سن مصباح صبح سے رات گئے تک کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی رہتی۔ کھانے کو بچی کھچی روٹی میسر آتی اور اس کے علاوہ گالیاں ٹھڈے چپیڑیں۔ وافر دستیاب ہوتیں۔ گھر کے مردوں کے لئے وہ کھلونا بن گئی۔ اس کا وجود مسلا جاتا۔ روندا جاتا صرف دو مہینے میں مصباح نے کرب اور اذیت کے کتنے دریا پار کر لئے۔ ابا اسے فون کرتا تو بیگم صاحبہ بہانہ بناتی رہتی۔ ایک دن بھی مصباح کی بات ابا سے نہ کروائی۔ یوں ایک روز غربت کے جھولے میں پروان چڑھنے والی مصباح جو شہر کے ایک خوشحال گھر میں اپنے باپ کا معاشی بوجھ بانٹنے آئی تھی اس گھر کے ظالم بدبخت مالکوں کا بہیمانہ تشدد سہتے سہتے موت کے سکون سے ہمکنار ہو گئی۔ پیٹ بھر روٹی سالن کا خواب لے کر لاہور شہر کے ایک خوشحال گھرانے میں، جو ظلم و ستم ہوتا رہا۔ اس کی خبر کسی کو نہ ہوئی۔ مگر جب مصباح یہ وحشت ناک تشدد سہتے سہتے موت کے سکون سے ہمکنار ہو گئی تو ایک ہاہا کار مچ گئی۔ ٹی وی چینلوں کے نمائندے اپنے کیمرے لے کر پہنچ گئے۔ مصباح کا ابا بھی روتا دھوتا آ گیا، ساتھ خاندان کی کچھ عورتیں سب نے احتجاج کیا اور مصباح کا بے جان وجود، زخموں، ٹھڈوں، زیادتیوں کے نشانات سے نیل و نیل ہوا دو مہینے اس پر گزرنے والے عذاب کی کہانی سنا رہا تھا۔
اس روز سارے ٹی وی چینلوں پر خبر چلی تھی، اگلے دن اخبار میں بھی خبر تھی۔ ساتھ وہی ایک گھڑا گھڑایا سرکار کے افسروں کا بیان کہ آئی جی پنجاب نے نوٹس لے لیا۔ سی سی پی او کو تحقیقات کا حکم۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ظالم سزا سے نہیں بچیں گے۔ لواحقین کی ہر ممکن مدد کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ اور بے نوائوں کے لئے، ناصاحب۔ نا۔ ہم پاکستان میں رہتے ہیں اور انصاف کے ایسے ارفع و اعلیٰ خواب دیکھنا بھی خود کو ایک خیالی دنیا میں بسانے کے مترادف ہے۔ یہ جو مصباح کے مرنے پر اتنی ہاہاکار مچی۔ تو کیوں۔ بھئی ٹی وی چینلوں کو اپنے وقت کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے تو خبر چاہیے ہوتی ہے، چاہے وہ مصباح جیسے مظلوم اور بے بس کی پرتشدد موت کی کیوں نہ ہو۔ ہاں اس سارے شور شرابے میں کہیں بھی اس صاحب اور بیگم کا نام نہیں لیا گیا، جنہوں نے جو مصباح کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ کیا قاتل بے نام ہیں؟ ان کا کوئی نام تو ہو گا۔ میں نے ساری خبروں کے تراشے ٹی وی چینلوں کی فوٹیج چھان ماری، مجھے تو نہیں ملا۔ جہاں پورا سسٹم ظالم کو بچانے کے لئے سرگرم ہو جائے وہاں انصاف کا خون ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد کی دس سالہ طیبہ پر سیشن جج خرم راجہ اور اس کی بیوی نے ہولناک تشدد کیا تھا۔ کیس اخبارات اور چینلوں تک آیا، طیبہ کا سوجا ہوا منہ اور تشدد کے نیلے نشانات زخمی انگلیاں سب کہانی بتا رہی ہیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا۔ مقدمہ چلا عدالت نے فیصلہ دیا کہ جج کی بیوی کو ایک سال سزا ہوئی، ایک لاکھ جرمانہ ہوا، بڑی واہ واہ ہوئی کہ کیا انصاف ہے اور اس انصاف کا ڈراپ سین یہ ہوا کہ طیبہ کے والد نے دبائو کے نتیجے میں ایک صلح نامے پر دستخط کر دیے اور کہا کہ یہ سارا معاملہ غلط فہمی کی بنا پر ہوا۔ اللہ اللہ خیر صلا، ایسی کئی مصبائیں، طیبائیں نام بدل بدل کر شہر کے دولت مندوں کی وحشت اور ظلم کا شکار ہوتی ہیں کبھی اس تشدد سے جان سے گزر جاتی ہیں یا اخبار میں خبر آ جائے تو اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ یہاں غریب و بے نوا کو بھی انصاف ملے گا۔
آئی جی پنجاب نوٹس لے لیں۔ سی سی پی او تحقیقات کا حکم دے دیں، وزیر اعلیٰ بیان جاری کر دیں۔ تو اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ ظالموں اور قاتلوں کو سزا بھی ملے گی؟ اور پورا پورا انصاف ہو گا۔ انصاف یہاں نہیں ہو گا۔ اس عدالت میں ہو گا، جہاں ایسے بسوں غریبوں، مجبوروں اور مظلوموں کے مقدمے کی پیروی کے لئے خودسرکار دو عالم ﷺ موجود ہوں گے ہاں اسی دن مصباح کو بھی انصاف ملے گا۔ !!