Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Pakistan Paindabad

    Pakistan Paindabad

    ممتاز محقق، مورخ، کالم نگار پاکستانیات کے ماہر ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب "سچ تویہ ہے"کے چوتھے باب سے ایک دلپذیر منظر پیش خدمت ہے۔"آٹھ بج کر دس منٹ پر قائد اعظم نامزد گورنر جنرل آف پاکستان اور مائونٹ بیٹن ایک بڑی بگھی میں دستور ساز اسمبلی کے لئے رخصت ہوئے۔ پھولوں کی پتیوں، فلک شگاف نعروں کے درمیان سفر کرتے ہوئے وہ تقریباً نو بجے صبح اسمبلی ہال پہنچے۔ شاہ برطانیہ کے نمائندے نے انتقال اقتدار کا اعلان کیا۔ بادشاہ برطانیہ کی جانب سے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا اور کہا کل سے زمام اقتدار حکومت پاکستان کے پاس ہو گی اور دوسری طرف بھارت کے پاس۔ اس کے بعد قائد اعظمؒ نے خطاب فرمایا اور برطانوی حکومت کا شکریہ ادا کیا اجلاس ختم ہوا۔ قائد اعظمؒ اور مائونٹ بیٹن اپنی نشستوں سے اٹھے اور اسمبلی کے داخلی دروازے کی طرف بڑھے۔ اسمبلی کے باب داخلہ پر برطانوی جھنڈا لہرا رہا تھا اسے فوج کی پسپائی کی غمگین دھنوں کے ساتھ اتارا گیا اور تہہ کر کے قائد اعظمؒ نے مائونٹ بیٹن کے حوالے کر دیا۔

    پھر پاکستان کا قومی پرچم جسے اسمبلی منظور کر چکی تھی قائد اعظم نے خود لہرایا۔ 31توپوں کی سلامی دی گئی۔ واپسی پر قائد اعظمؒ اور مائونٹ بیٹن نواب آف بہاولپور سے ادھار مانگی گئی پرانی رولز رائس پر گورنر جنرل ہائوس پہنچے۔ مائونٹ بیٹن دلی کے لئے محو پرواز ہو گئے"کتاب کے اس چوتھے باب کا نام ہے ستائیسویں رمضان قیام پاکستان اور غلط بیانیاں۔ اس میں ڈاکٹر صفدر محمود نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ پاکستان چودہ اور پندرہ اگست 1947ء کی نصف شب بارہ بجے معرض وجود میں آیا جو اسلامی تاریخ کے حساس سے ستائیسویں رمضان بنتی ہے۔ اس باب میں یہ روح گرما دینے والا منظر یوں بیان کیا گیا ہے۔"26اور 27رمضان(14-15اگست) کی نصف شب بارہ بجے جب ریڈیو سے انگریزی میں ظہور آذر اور اردو میں مصطفی علی ہمدانی نے یہ اعلان کیا کہ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے تو ساری قوم خوشیوں سے جھوم اٹھی۔ پھر مولانا زاہد قاسمی نے عظیم کامیابی کی مناسبت سے سورہ الفتح کی پہلی چار آیات کی تلاوت اور ترجمہ کی سعادت حاصل کی۔

    سورج طلوع ہونے سے پہلے یوم آزادی کو 31توپوں کی سلامی دی گئی۔ 27رمضان، 15اگست کو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حلف برداری ہوئی یہ تقریب گورنمنٹ ہائوس کے وسیع کورٹ یارڈ اور سرسبز لان میں منعقد ہوئی جہاں نئی کابینہ کے اراکین کے علاوہ بہت اہم شخصیات اور سفارتی نمائندے موجود تھے۔"ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں کہ قائد اعظمؒ کی شخصیت میں سے کیڑے نکالنے والے اور پاکستان مخالف گروہوں نے اس تقریب کے حوالے سے بے بنیاد جھوٹی خبریں پھیلا رکھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ تقریب میں قائد اعظمؒ آتے ہی گورنر جنرل کے لئے مختص کرسی پر بیٹھ گئے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرعبدالرشید جنہوں نے حلف لینا تھا وہ مسکرائے اور کہا کہ ابھی آپ نے حلف نہیں لیا اس لئے اس کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے۔ قائد اعظمؒ نے کہا آئی ایم سوری اور پھر دوسری کرسی پر بیٹھ گئے۔ ان کے علاوہ بھی اس حلف برداری کی تقریب سے متعلقہ کئی غلط فہمیاں جان بوجھ کر پھیلائی گئیں کہ بانی پاکستان نے آئین برطانیہ کا وفادار رہنے کا حلف اٹھایا تھا۔

    قائد اعظمؒ پر برطانیہ کی وفاداری کا حلف کا الزام لگانیوالوں کو علم ہی نہیں کہ قائد اعظمؒ کے حلف کے آخری الفاظ یہ تھے۔"میں پاکستان کے بننے والے آئین کا وفادار رہوں گا" قومی پرچم قائد اعظمؒ نے خود لہرایا۔ یہ دعویٰ کہ پرچم کشائی مولانا شبیر احمد عثمانی سے کروائی گئی بالکل بے بنیاد ہے۔ قائد اعظمؒ کا کرسی پر بیٹھنا اور اٹھنا محض افسانہ ہے"

    238صفحات کی اس مختصر کتاب میں، قیام پاکستان اور بانی پاکستان قائد اعظمؒ محمد علی جناح کے حوالے سے پھیلائی گئی لغو اور بے بنیاد باتوں کی مدلل تردید کی گئی ہے۔ پروپیگنڈے کی گرد سے سچائی کو تلاش کر کے لانا آسان نہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ پھر اپنا فرض اولین جان کر مسلسل اس سچائی کا پرچار کرتے رہنا کسی سچے پاکستان اور بانی پاکستان کے عاشق صادق ہی کا نام ہے۔ سید ہاشم رضا کی ایک خوبصورت بات یاد آتی ہے۔ پی ٹی وی کے پروگرام میں انہیں بطور مہمان بلایا گیا وہ قیام پاکستان کے بعد کراچی کے پہلے منتظم تھے۔ بانی پاکستان کے ساتھ ان کا قریبی تعلق رہا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی تدفین کے لئے جگہ بھی سید ہاشم رضا نے تجویز کی۔ پروگرام کے میزبان نے پوچھا کہ آپ نے قائد اعظمؒ کو قریب سے دیکھا ان کی شخصیت کو مختصر انداز میں کیسے بیان کریں گے۔

    سید ہاشم رضا عمر کے آخری مرحلے میں تھے۔ سوال سن کر کچھ دیر انہوں نے توقف کیا اور پھر دریا کو کوزے میں یوں بند کیا ؎

    پھر پلٹ کر نگاہ نہیں آئی

    تجھ پہ قربان ہو گئی ہو گی

    دو مختصر مصرعوں میں محبت اور عقیدت کی پوری داستان سید صاحب نے ایسے بیان کر دی۔ آج برسوں بعد بھی یادداشت میں موجود ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود بھی ایسے ہی قابل فخر محقق اور مورخ ہیں جو پاکستان اور بانی پاکستان کی محبت سے سرشار ہیں اور تاریخی حقائق مسخ کرنیوالوں کو مدلل جواب دینے کے لئے ہمہ وقت پرعزم رہتے ہیں۔ پاکستانی قوم کو ان کا احسان مند ہونا چاہیے جو تحریک پاکستان کے تاریخی سفر اور بانی پاکستان کے اصل اور حقیقی کردار سے پاکستانی قوم کو آگاہ کئے ہوئے ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی تحریروں سے استفادہ کرنا چاہیے۔