لگی بندی مصروفیت کے یکسانیت بھرے شب و روز میں سانس لیتی ہوئی زندگی تہواروں کی چھٹیوں میں سستانے لگتی ہے۔ تہوار کی خوشی، مل بیٹھنے کے اگرچہ وہ قرینے ابھی واپس نہیں آئے لیکن پھر بھی سماجی فاصلے کو قائم رکھتے ہوئے، معانقے اور مصافحے سے گریز کرتے ہوئے منہ پر ماسک چڑھائے، کچھ وقت میل ملاقات میں ضرور صرف کیا۔
کچھ عیدالاضحی کی چھٹی۔ اور کچھ کالم کے دنوں کی چھٹی ایسے وقت میں آئی کہ لکھنے میں پانچ دن کا وقفہ پڑا۔ یعنی آج پانچواں روز ہے کہ قارئین کی چوپال میں اپنی کہانی لئے حاضر ہیں۔
چھٹی جہاں ہمیں تازہ دم ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے وہیں روٹین کے شب و روز سے ہٹ کر جب کچھ وقت الگ طرح سے گزارنے کا موقع ملتا ہے تو کچھ وقت انسان اس طرح بھی گزارتا ہے کہ جس میں آپ اپنی معمول کی زندگی کے بارے میں سوچ بچار کرتے ہیں۔ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں اس سارے عمل کے لئے انگریزی کا ایک لفظ Reflectionاستعمال کرنا چاہتی ہوں کیونکہ سوچ بچار میں کچھ کچھ پریشانی کا شائبہ محسوس ہوتا ہے اور پھر ہمارے ہاں تو یہ کہاوت بھی مشہور ہے کہ سوچی پیا تے بندا گیا۔ اس بات کو کیٹس (Keats)نے کچھ اس انداز سے بیان کیا کہ
To be think is to be full of sorrow
سو یہ وہ والا سوچ بچار نہیں جو آپ پر بیچارگی طاری کر دے۔ ریفلیکشن Reflection ایک ایسا عمل ہے جس میں آپ اپنی زندگی پر غورو فکر کرتے ہیں اور جو مسائل ہوں ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ زندگی جس سمت میں جا رہی ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ مثلاً آپ کتنی دیر سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، آپ اپنے سوشل میڈیا کے استعمال میں کچھ نیا سیکھتے ہیں یا پھر کمنٹس اور لائک ہی میں وقت گزر جاتا ہے۔؟
آپ کے کھانے پینے کی عادات کیا ہیں۔ وزن زیادہ ہے تو اس کو کم کرنے کے لئے واقعی آپ کچھ کرتے ہیں یا صرف کڑھتے رہتے ہیں۔ مختلف ڈائٹ پلان پر غور و فکر تو کرتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ وزن کم کرنے کے لئے آپ کو عملی طور پر کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا آپ زیادہ وقت سوچنے اور پروگرام بنانے میں صرف کرتے ہیں۔؟ کیا آپ عملی طور پر کمزور انسان ہیں۔؟
آپ کا ریلیشن شپ اپنے رشتوں کے ساتھ کیسا ہے۔؟ آپ کے شوہر، بیوی، بچے، ماں باپ، بہن، بھائی، رشتہ داروں کے ساتھ آپ کا رویہ برتائو کیا ہے۔ کیا آپ اپنے رشتوں کو مضبوط بنانے کے لئے ان پر محنت کرتے ہیں۔؟ کیا آپ کی کوئی عادت ایسی ہے جو اپنوں کے ساتھ آپ کے تعلق کو کمزور کرتی ہو۔ آپ نے کبھی اس عادت کو بدلنے کا سوچا ہے۔؟ کوئی ایک ایسی خواہش کوئی ایک مقصد جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ اسے حاصل نہیں کر پا رہے کیا آپ صرف گفتار کے غازی ہیں یا پھر یہ کہ آپ کوشش تو کرتے مگر آپ کا طریقہ کار ہی غلط ہے۔؟
زندگی سے متعلق انگنت زاویے اور ان زاویوں پر غور فکر کرنا ان مسائل کا حل تلاش کرنا اور اپنی زندگی کو بہتر درجے میں داخل کرنا ہی ریفلیکشن ہے۔ ریفلیکشن باقاعدہ ایک آرٹ بھی ہے اور سائنس بھی اور اس عمل کے مختلف مراحل ہیں۔ چونکہ سیلف گرومنگ کے اس موضوع پر کام ہی انگریزوں نے کیا ہوا ہے سو مجھے انہی کے الفاظ مستعار لینے پڑیں گے۔ سب سے پہلا مرحلہ ہے کہ آپ اپنی زندگی کے کسی ایک زاویے، کسی ایک تجربے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ مثلاً نوکری کے لئے انٹرویو دینا۔ یہ ایک تجربہ ہے۔ ایک واقعہ جو آپ کی زندگی میں ہوا اب اس پر غور و فکر کرنا یہ Reflection کی سٹیج ہے۔ آپ تجزیہ کرتے ہیں کہ انٹرویو کا مرحلہ کیسا رہا، اعتماد کی سطح کیا تھی۔ آپ کی بدن بولی (body language)سے اعتماد جھلک رہا تھا یاآپ پریشان اور کنفیوژ دکھائی دیئے۔ آپ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آپ انٹرویو کے دوران اپنا کانفیڈنس برقرار نہیں رکھ سکے۔ اب تیسرا مرحلہ ہے کہ اس رویے کو اپنی پوری زندگی کے تناظر میں دیکھیں کہ کیا وجہ ہے کہ آپ انٹرویو پینل کے سامنے اچھی پرفارمنس نہیں دکھا سکے۔ اس کے بعد چوتھا مرحلہ ہے اعتماد کی کمی کو بہتر کیسے کیا جائے۔ کون کون سے عملی اقدامات ایسے اٹھائے جائیں کہ درست سمت میں سفر شروع ہو جائے۔ کیسے پریکٹس کی جائے کہ رفتہ رفتہ آپ کا کانفیڈنس لیول بڑھتا چلا جائے۔ تاوقتیکہ آپ کو اپنی ذات پر، اپنی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد اور اعتبار حاصل ہو جائے اور اگلی دفعہ جب آپ انٹرویو دینے جائیں تو پینل پر اپنے اعتماد کی دھاک بٹھا کر نتیجہ اپنے حق میں کر سکیں گے۔
ریفلیکشن کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ہم اپنی ذات سے جڑے زندگی کے ان نگنت زاویوں پر ایسے یہ غورو فکر کر کے ریفلیکشن کے عمل سے گزر کر اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں کیونکہ اس عمل میں ہم اپنی کمی کوتاہی یا مسائل کو بڑے دیانت دارانہ طریقے سے figur outکرتے ہیں۔ پھر اس کی وجوہات اور پھر اس کے حل کے لئے عملی اقدامات کرتے ہیں۔
ریفلیکشن کا یہ عمل صرف فرد کو ہی نہیں حکومتوں کو بھی کرنا چاہیے۔ قومی سیاست ہو یا عالمی سیاست ہمارے یہاں طریقہ سیاست ایکشن اور ری ایکشن ہے۔ عمل اور ردعمل کے اس کھیل میں نہ صرف پہلے سے موجود مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں بلکہ نئے مسئلے بھی جنم لیتے رہتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر اس کی ایک واضح مثال ہے۔ 72سالوں سے یہ ایکشن اور ری ایکشن کے جمود کا شکار ہے۔
بھارت کے ظالمانہ اقدامات اور ہمارا احتجاجی ری ایکشن۔ !72سالوں سے یہی ایکشن، ری ایکشن دہرایا جا رہا ہے۔ بات اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ آج پانچ اگست ہے پورا سال بیت گیا ہے مظلوم کشمیری بھارت کے ظالمانہ محاصرے میں زندگی کاٹ رہے ہیں۔ مگر ہم صرف ردعمل سے آگے نہیں جاتے۔ دو منٹ خاموشی۔ ریلیاحتجاج اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔
مسئلہ کشمیر کو ریفلیکشن کے پورے عمل سے گزار کر جانچا جائے کہ 72سالوں کے بعد یہ مسئلہ کس جگہ کھڑا ہے۔ حل نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں۔ حل کرنے کی طرف کون سے عملی اقدامات ہونے چاہئیں۔ 72سالہ مسئلہ ایک دن میں حل نہیں ہو گا لیکن دیانت دارانہ ریفلیکشن کے عمل کے بعد کم از کم مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف سفر تو شروع ہو سکتا ہے۔ ورنہ احتجاج، ترانوں اور ریلیوں والے ری ایکشن تو ہم کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔