چند سال پیشتر یہ خبر اخبار میں آئی تھی کہ مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والی ایک لیڈی ڈاکٹر کو اس کے والد نے پسند کی شادی کرنے پر قتل کر دیا۔ میرے لئے یہ خبر کئی حوالوں سے پریشان کن تھی۔ اپنی ڈاکٹر بیٹی کو قتل کرنے والے ڈرائیور کو میں ایک حوالے سے ذاتی طور پر جانتی تھی۔
منظور میرے بڑے بھائی نوید قریشی کے ساتھ مظفر گڑھ میں ان کی پوسٹنگ کے دوران بطور ڈرائیور ڈیوٹی دیتا رہا تھا۔ غریب شخص تھا اور اور اپنے بچوں کو غربت میں تعلیم دلا رہا تھا۔ ایک بیٹی بہت لائق نکلی، ایف ایس سی کے بعد میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ہو گیا نشتر میڈیکل کالج میں پڑھنے لگی۔ اس کے اخراجات بہت تھے تو غریب منظور اس کے لیے بہت پریشان رہتا تھا ۔ اس کے جذبے کو پورے دفتر میں سراہا جاتا تھا کہ غریب ہے لیکن اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنا رہا ہے۔
ایک دفعہ بھائی جان نے میرے ساتھ رابطہ کیا کہ اردو ڈائجسٹ کے ڈاکٹر اعجاز حسن نے کاروان علم فاؤنڈیشن کا آغاز کیا ہے جو غریب مگر ذہین طلباء و طالبات کو تعلیمی وظائف جاری کرتے تھے وہ کچھ معلومات لینا چاہتے تھے بہرحال اس سلسلے میں انہوں نے کوشش کی اور ڈرائیو منظور کی بیٹی کا وظیفہ کاروان علم فاؤنڈیشن طرف سے جاری ہوگیا ۔
یہ پس منظر ہے کہ کن حالات میں محبت کرنے والے غریب باپ نے اپنی بیٹی کے تعلیمی اخراجات پورے کیے۔ لیکن یہی باپ جو اپنی بیٹی سے بے انتہا محبت کرتا تھا اور اس کی میڈیکل کی تعلیم کے لیے پیسے اکٹھے کیا کرتا تھا، اپنی بیٹی کو ہر طرح سے سپورٹ کرتا تھا، ایک روز اپنے ہاتھوں سے ڈاکٹر بیٹی کو قتل کر دیتا ہے، یہ خبر جس نے بھی سنی وہ ہل کر رہ گیا۔
جس خواب کو ڈرائیور منظور ساری زندگی پائی پائی جوڑ کر سینچتا رہا اس نے اس خواب کو اپنے ہاتھوں سے کیسے اجاڑ دیا۔ غریب گھر سے تعلق رکھنے والی لڑکی ڈاکٹر تو بن گئی تھی مگر شادی کے لیے اس کے جوڑ کا لڑکا خاندان میں موجود نہیں تھا جبکہ والدین کی جہالت کہ وہ اپنی اعلی تعلیم یافتہ بیٹی کارشتہ خاندان ہی کے کسی جاہل ان پڑھ لڑکے سے کرنے پر بضد تھے۔ ایک اعلی تعلیم یافتہ لڑکی کے لیے ایسا کیسے ممکن تھا کی وہ ایک جاہل ان پڑھ کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیتی وہ اپنے ایک ساتھی ڈاکٹر کو شریک سفر بنانا چاہتی تھی، باپ نے اسے غیرت کا مسئلہ بنا لیا۔ پھر سماجی دباؤ اور جھوٹی انا کے ہاتھوں اپنی اسی ڈاکٹر بیٹی کو قتل کردیا۔
سماجی اور معاشرتی دباؤ کا اندازہ لگائیں کہ جو باپ کی بیٹی سے محبت کو بھی ایک عفریت کی طرح چاٹ گیا۔ لیڈی ڈاکٹر کے قتل میں باپ کے ساتھ اس کے بھائی کو بھی معاون کے طور پر سزا ہوئی۔
سنا ہے کہ بیٹا تاحال جیل میں ہے جبکہ ڈرائیور منظور پاگل ہو چکا ہے۔ سماجی دباؤ پر ڈرائیورمنظور نے اپنی پوری زندگی کی کمائی کو انا کی بھینٹ چڑھا دیا۔ شادی کے لیے اپنی پسند کے اظہار کی اجازت مذہب عورت اور مرد دونوں کو دیتا ہے۔ لیکن شعورکی یہ روشنی کبھی منبرو محراب سے سماج کے تنگ نظر ذہنوں تک نہیں پہنچتی۔ مسجد کے امام حضرات کبھی اسکو جمعے کے خطبے کا موضوع نہیں بناتے۔
مجھے یقین ہے کہ ڈرائیو منظور نے جمعہ کے خطبے میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اگر سرکار دوعالمﷺ کی مشکبار احادیث سنی ہوتیں تو وہ کبھی بھی اپنی بیٹی کو باغی اور مجرم سمجھ کر قتل نہ کرتا۔ لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں مسجد کے منبر سے دلوں کو کشادہ کرنے والی روشنی کی بجائے تنگ نظری اور تفرقہ کی تاریکی زیادہ پھیلی۔
حال ہی میں بھارت سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، عائشہ نامی لڑکی نے اپنے شوہر اور سسرال والوں کے جہیز کے مطالبے سے تنگ آ کر سے خودکشی کرلی۔ عائشہ کی طرح پاکستان اور بھارت میں جہیز نہ لانے یا کم جہیز لانے کی صورت میں لاکھوں لڑکیاں اسی طرح کے عذاب سے گزرتی ہیں۔ جہیز ایک لعنت ہے، یہ نعرہ اب ایک کلیشے بن چکا ہے۔ اثر اور معنی سے تہی ایک بے روح نعرہ۔۔ !لاکھوں کے جہیز کا مطالبہ تو لڑکی والوں سے کیا جاتا ہے جبکہ لڑکے والے حق مہر چند ہزار روپے رکھنے اکتفا کرتے ہیں۔ جہاں دو خاندانوں کے درمیان تعلق اس قدر عدم توازن پر استوار ہو وہاں لڑکی والے ہمیشہ ایک تکلیف دہ دباؤ میں رہتے ہیں۔
میں کہوں گی کہ مسجد کے منبر سے معاشرے کی تربیت کا آغاز ہونا چاہیے۔ اگر جمعہ کے خطبے میں اس طرح کے سماجی مسائل پر بات ہوتی رہے تو رفتہ رفتہ لوگوں کی تربیت ہونے لگے گی اور یہ احساس لوگوں میں بیدار ہو گا کہ لڑکے کے لیے لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنا ایک ذلت آمیز کام ہے۔
خواتین کو جائیداد سے محروم رکھنا ایک اور سماجی مسئلہ ہے جس کو کبھی بھی مذہب کی روشنی میں نہیں دیکھا جاتا کیونکہ مذہب عورت کو جائیداد کا وارث بناتا ہے۔ بہنیں اپنا حصہ بھائیوں کے نام لکھ کر اپنے حق سے خود دستبردار ہو جاتی ہیں بدترین سماجی دباؤ یہ ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے جائیداد میں سے حصہ لے لیا تو پھر ان پر میکے کے دروازے اور والدین کے بعد بھائیوں کے گھر کے دروازے بند ہو جائیں گے۔
بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین کے حوالے سے دین اسلام میں واضح ہدایت ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے ان کے لیے نکاح کا بندوبست کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس ہمارا سماج بیوہ اور طلاق یافتہ عورتوں سے جو کانٹوں سے بھرا سلوک روا رکھتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ تربیت کا آغاز مسجد کے منبر سے ہونا چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ مسجد کا منبر و محراب جن کے ہاتھوں میں ہے ان کی تربیت کون کرے گا؟