ہر انسانی معاشرہ، وہاں بسنے والے انسانوں کی عادات اور رویوں کا عکس ہوتا ہے۔ جہاں انسانوں میں اچھے رویے نیک عادات ہوں گی۔ وہ معاشرہ خوب صورت اور تہذیب یافتہ ہو گا۔ وہاں بسنے والے انسان ایک دوسرے کے لئے زحمت نہیں رحمت اور باعث سہولت ہوں گے۔ اس کے برعکس اگر اکثریت کے رویے اور عادات بری ہوں گی تو وہ معاشرہ بدصورت اور بدبودار ہو گا۔ وہاں بسنے والے انسان ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث ہوں گے۔ سیون ڈیڈلی سن(seven deadly sin)سات جہنمی گناہ۔ ان کا تذکرہ میں نے پہلی بار کرسٹو فرمارلو کے پلے ڈاکٹر فاسٹس میں پڑھا۔ یہ سات گناہ یا سات بڑے انسانی رویے میرے لئے نئے نہ تھے کہ ہم نے ان کے حوالے سے قرآن و حدیث میں واضح احکامات پڑھ رکھے تھے۔
ڈرامے میں ان سات جہنمی عادات کو شخصیت کے روپ میں ڈھال کر ڈرامے کے ہیرو، ڈاکٹر فاسٹس سے ملوایا جاتا ہے۔ مارلو کا تخیل یہاں اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ ترتیب وار سات رویے اس طرح سے ہیں 1۔ غرور و تکبر(pride)2۔ لالچ (greed)3۔ بے قابو جنسی خواہش اور ہر قسم کے مال و متاع اور طاقت کی ہوس(lust)4۔ حسد کرنا۔ (Envy)5۔ پیٹو پن۔ بسیار خوری(gluttony)6۔ غصہ، اشتعال پسندی(Wrath)7۔ سستی، آلکسی، کسلمندی (Sloth)(Laziness)یونانی تہذیب اور اخلاقیات میں مایوسی بھی ان گناہوں میں شامل ہے۔
یہ سات گناہ بنیادی طور پر سات انسانی رویے ہیں جن کی کوکھ سے روئے زمین پر بڑے سے بڑا گناہ اور برائیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ انسانی رویے یا عادات اگر کسی عام شخص میں ہوں گی تو نہ صرف اس کی اپنی بلکہ اس سے وابستہ لوگوں کی زندگیاں بھی مشکل سے دوچار ہوں گی۔ گر یہ انسانی عادات اور رویے حکمرانوں میں ہوں، یا ایسے اہم افراد میں جو معاشرے میں اثرورسوخ رکھتے ہیں تو اس کے بداثرات دور تک بھی جائیں گے اور ان کا دائرہ اثر پورا معاشرہ اور پھر پورا ملک ہو گا۔ ان سات رویوں میں سے کوئی ایک بھی عادت کسی شخص میں ہو تو اس کی زندگی کو ناکامی سے دوچارکر سکتی ہے سب سے پہلے پرائڈ یعنی غرور اور تکبر پر بات کرتے ہیں۔
اسلام میں ہے کہ جس میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ہمارے دین کی اساس ہی اسی تصور پر ہے کہ فخر و غرور کے تمام بت ڈھا دیے جائیں اور تمام انسانوں کو برابر سمجھا جائے۔ فوقیت اسے حاصل ہو گی جو تقویٰ میں سب سے بہتر ہو گا۔ اس تصو ر کو معاشرے میں عملی طور پر نافذ کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔ ہم اپنی ذات، اپنے حسب و نسب، اپنے فرقے، اپنے نظریات، اپنے خیالات پر فخر محسوس کرنا اور دوسروں کو اس کے مقابل کمتر جاننا تکبر نہیں تو اور کیا ہے۔ لالچ کرنا یعنی زیادہ کی خواہش وہ رویہ ہے جس نے ہمارے معاشرے کو آکٹوپس کی طرح جکڑ لیا ہے۔ دولت کا لالچ، عہدے کا لالچ، اقتدار کے حصول کا لالچ، اقتدار کی طوالت کا لالچ، جائیدادوں، اربوں کھربوں بنک بیلنس کا لالچ، یہی لالچ، دولت کے انبار سوئس بنکوں میں رکھواتا ہے۔ پانامہ جیسی ٹیکس فری زون میں اپنی جمع کی ہوئی دولت کو چھپانے کا جتن کرتا ہے۔ لالچی شخص ہمیشہ خود غرض ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کا حق مار کر اپنی تجوریاں بھرتا ہے۔ لالچی شخص ہمیشہ کرپٹ اور بددیانت ہو گا۔ کرپشن اس وقت پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں کسی نہ کسی سطح کی کرپشن موجود ہے۔ انسان فطری طور پر لالچی ہے اور اس کا اظہار ہر سطح پر ہو رہا ہے۔
خاندانوں کو جائیداد کے لالچ میں بکھرتے دیکھا ہے۔ بھائی بھائی کو جائیداد ہتھیانے کے لئے قتل کر رہا ہے۔ یہی لالچ ہی تو ہے کہ بہنوں کو جائیداد کے حصے سے باہر رکھا جاتا ہے۔ تیسرے نمبر پر حسد کرنا۔ دوسروں کے پاس نعمتوں اور آسائشوں کو دیکھ کر اپنے دل میں تکلیف محسوس کرنا۔ مجھے ایک خبر یاد آتی ہے ننھے بچے کو اس کی ممانی نے حسد کے نفرت انگیز جذبے کے تحت قتل کر دیا تھا۔ پولیس کی حراست میں قاتلہ نے بتایا کہ جب میری ساس میرے بیٹے سے زیادہ میری نند کے بیٹے سے پیار کرتی تھی تو مجھے بہت حسد اور جلاپا محسوس ہوتا تھا۔ حسد کی آگ میں جل کر کسی کی جان لے لینا، انتہائی قدم ہے۔ حسد کے ہلکے مظاہر بھی انسانی زندگی کے فیبرک کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اسلام نے حسد کی اس حد تک مذمت کی ہے کہ فرمایا۔ حسد سے بچو، حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑی کو۔ یہ بہت بڑی تنبیہ ہے کہ حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے۔ اس لئے ایسا کیا گیا کہ حسد کرنے والا ہمیشہ ناشکرا ہوتا ہے۔ وہ ان نعمتوں کا جو اللہ نے اسے عطا کی ہوئیں شکرانہ ادا کرنے کی بجائے دوسروں کی آسائشوں اور نعمتوں پر دل میں تکلیف اور حسد محسوس کرتا ہے، یوں وہ اللہ تعالیٰ کی سخت ناشکری کا مرتکب ہوتا ہے۔ حسد کرنے والا دوسروں کی خوبیوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ کشادہ دل اور اعلیٰ ظرفی سے تہی ہوتا ہے۔ حاسدین کے شر سے پناہ مانگنے کی دعا مانگی گئی ہے۔
جو شخص کشادہ دل نہیں ہو گا، اعلیٰ ظرف نہیں ہو گا، ناشکرا ہو گا، اس کے اندر عدم برداشت ہو گی، وہ تھڑ دلا ہو گا وہ صرف اپنی ہی نہیں اپنے ساتھ رہنے والوں کی زندگیاں بھی جہنم بنائے گا۔ حسد کرنے والا انسان دوسرے کو دعا نہیں دے سکتا۔ وہ کسی کے لئے اچھا نہیں چاہ سکتا۔ ایسا شخص دوسروں کی برائیوں پر نگاہ رکھنے والا اور ان کی خامیوں کو اچھالنے والا ہوتا ہے۔ اللہ ہم سب کو اس سے پناہ دے اور ہمارے دلوں کو کشادہ اور شکر گزار رکھے۔ باقی رویوں پر اگلے کالم میں بات ہو گی۔ (جاری)