آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پر ٹرول کرنے والے یعنی دوسروں کو اپنے سخت اور زہریلے الفاظ کے ساتھ اذیت دینے والے افراد کی نفسیات کا تجزیہ کیا۔ جو حقائق سامنے آئے وہ حیران کن تھے۔ آن لائن دوسروں کو اپنے الفاظ سے اذیت دینے والے افراد نے کہا کہ وہ آف لائن یہ مز اج نہیں رکھتے لیکن آن لائن انہیں ایسا کر کے خوشی ملتی ہے کیونکہ جب سامنے کوئی جسمانی طور پر موجود نہیں ہوتا تو ایسا کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ ایک ٹرولر نے کہا کہ مجھے اجنبی افراد کو ٹرول کر کے مزا آتا ہے۔
یہ تحقیق بتاتی ہے کہ آن لائن دشنام طرازی کرنے والے افراد اپنے بارے میں بہت اونچے خیالات رکھتے ہیں اور خود کو ایک مکمل اور شاندار شخصیت سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں اذیت پسندی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے سماجی ویب سائٹس پر ایسے افراد کی کثرت اپنے زہریلے الفاظ سے آن لائن سماجی ماحول کو بدبودار کرتی نظر آتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے باقاعدہ ایسے سوشل میڈیا سیل بنائے ہوئے ہیں جہاں سیاسی حریفوں کی بدترین انداز میں ٹرولنگ کی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ہم اپنی زندگی کو شاندار بناکر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ فلٹر کی ہوئی ایڈٹ شدہ تصویریں شئیر کرتے ہیں۔ کئی بار میرے ساتھ ایسا ہوا کہ سوشل میڈیا پر پر نظر آنے وا لی کسی خاتون کو حقیقی زندگی میں دیکھا تو پہچان نہیں سکی شاید وہ بھی مجھے نہ پہچان سکی ہو کیونکہ ہم سوشل میڈیا پر اپنے اصل سے مختلف نظر آتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال پر کسی نے دلچسپ تبصرہ کیا کوئی انسان کبھی اتنا برا نہیں ہوتا جتنا وہ اپنے شناختی کارڈ پر دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی اتنا حسین ہوتا ہے جتنا وہ اپنے فیس بک آئی ڈی پر نظر آتا ہے۔ میں اس میں تھوڑا سا اضافہ کروں گی کہ کوئی بھی شخص اتنا اعلی اخلاقی اقدار کا حامل ہر فن مولا، قابل اور مکمل شخصیت ہو ہی نہیں سکتا جتنا وہ اپنی سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی پوسٹوں میں دکھائی دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہماری زندگیوں کی تصویر ایسے ہی نظر آتی ہے جیسے آئینے میں سیب کے مکمل حصے کا عکس ہو اور آدھ کھایا سیب کا حصہ آئینے سے اوجھل ہو۔
سوشل میڈیا دھوکے اور دکھاوے کا کلچر ہے تو یاد رکھیں کہ جو دکھائی دیتا ہے وہ ہوتا نہیں، جو ہوتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے 45 ملین افراد فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ مگر ان سب کو ہم سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نہیں کہہ سکتے۔ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ وہی ہے جو ہمہ وقت یعنی ٹونٹی فور سیون سوشل میڈیا پر آپ کو ایکٹیو دکھائی دے ہر، روز پوسٹیں شیئر کرے اور ہر آنے والی فرینڈ ریکویسٹ کو قبول کرکے اپنے فرینڈ لسٹ کو بڑھاوا دے۔ سوشل میڈیا کی دنیا کے اپنے سطحی پیمانے ہیں۔ جس پوسٹ پر لائک اور کمنٹسکی بھرمار ہوگی وہ اپنے تئیں مقبول لکھاری سمجھ لیا جائے گا۔ ایسا کئی بار مشاہدے میں آیا کہ کسی سوشل میڈیائی ایکٹیوسٹ کی عام سی تحریر پر کمنٹس اور لائکس کی بھرمار تھی جبکہ اس کے مقابلے پر ادب اور صحافت کے ممتاز اور انتہائی معتبر ناموں کی پوسٹوں پر کمنٹس اور لائیک کے حوالوں سے ویرانی کی کیفیت یہ صورتحال دیکھی تو سوشل میڈیا کے سطحی ہونے کا یقین آگیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا نے بہت سے لوگوں کو شناخت دی اور انہوں نے اس پر خود کو نئے سرے سے دریافت کیا ہے۔ ہمارے ہاں سوشل میڈیا لکھاریوں کی ایک بڑی کھیپ سامنے آئی جنہوں نے سوشل میڈیا پر ہی لکھنا شروع کیا۔ چونکہ سوشل میڈیا پر کسی چیز کی کوئی قدغن نہیں کو، ئی قاعدہ کوئی ضابطہ نہیں، تو ہمیں یہاں ایسا ایسا مواد نظر آیا جو عام طور پر اخباروں اور رسالوں میں کبھی نہیں چھپا تھا۔ زبان و بیان میں کھلے پن کا مظاہرہ ہونے لگاان موضوعات پر بھی لوگ خامہ فرسائی کرنے لگے ہیں جو مذہبی اور سماجی طور پر بہت حساس سمجھے جاتے تھے اور جس سے آگ بھڑکنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ زبان و بیان کے اسی کھلے ڈھلے انداز نے بہت سے اختلافات کو ہوا دی۔
ہمارے یہاں ایسے خود ساختہ دانشوروں کی ایک فوج آپ کو سوشل میڈیا پر دکھائی دے گی جو دوسروں کی اصلاح کرتی دکھائی دے گی۔ لہجے کے تیور بھی ایسے ہوں گے کہ گویا خود دودھ کے دھلے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو سوشل میڈیا پر اخلاقی، مذہبی اور سماجی اصلاح کی تحریروں کی بھرمار دکھائی دے گی ہر دوسرا شخص اصلاحی پوسٹیں کر رہا جب کہ حقیقی معاشرے کی تصویر اس کے برعکس ہے۔ لوگ جب اپنے آپ کو بہترین انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر ایک طرف تو نہ صرف فالورز ان کو آئیڈیلائز کرنے لگتے ہیں بلکہ وہ خود کو بھی دنیا کا بہترین شخص تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہ خود پسندی اختلاف برداشت کرنے کا حوصلہ چھین لیتی ہے کیونکہ لوگوں کی واہ واہ ان کو یہ یقین دلاچکی ہوتی ہے وہ ہر قسم کی خامی اور کجی سے پاک ہیں۔ سوشل میڈیا پر لکھنے والے لکھاری کاغذ کی تنہائی کے تجربے سے گزرے بغیر ہی لکھاری بنتے ہیں تو غیر ارادی طور پر لکھتے ہوئے ان کے فیس بک فالورز ان کے پیش نظر رہتے ہیں۔ بہتر لکھنے کے لیے ایک لکھاری کو تخلیقی مراقبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ہنگام پرور ماحول میں آپ اپنے اندر کی تنہائی کی آواز نہیں سن سکتے۔
سوشل میڈیا پر ملنے والی تعریفوں سے ہم سب کی انا کو تسکین ملتی ہے۔ یہ عین فطری ہے لیکن اس پر حقیقت کا بند ضرور باندھے رکھیں۔ میرا آزمایا ہوا نسخہ یہ ہے کہ جب باہر کی واہ واہ کا شور بڑھ جائے اور خون میں خود پسندی کا گلوکوز لیول خطرے کی حد کو چھونے لگے تو سچائی کو اپنے اندر تلاش کرنے کے لیے میں سوشل میڈیا کے ہجوم سے فاصلہ بڑھا لیتی ہوں۔ ماہرین اس کے لیے detox digital کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔