دنیا پر کرونا وائرس کی تباہی کی صورت تیسری جنگ عظیم مسلط ہو چکی اور دشمن کو مات دینے میں ڈاکٹروں کا کردار کلیدی ہے۔ یہ ایک غیر معمولی جنگ ہے جو جنگی محاذ تک محدود نہیں بلکہ ایک پراسرار نادیدہ دشمن ہر شخص کی تاک میں ہے، ہر شخص خوف اور سہم سے دوچار ہے۔ محاذ جنگ کا سب سے حساس اور خطرناک علاقہ ہسپتال اور قرنطینہ مراکز ہیں جہاں کرونا کے تشخیص شدہ مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے اور اس محاذ پر بہادری سے اپنے فرائض انجام دینے والے مجاہد، سفید کوٹ والے ڈاکٹرز، نرسیں اور نیپرا میڈیکل سٹاف ہے۔ کرونا کا وہ مریض جو اپنے پیاروں کے لئے ہی ایک اچھوت بن جاتا ہے اور وہ اس کے قریب تک نہیں جا سکتے کیونکہ یہ نادیدہ دشمن پراسرار طریقے سے مریض کے قریب سے گزر جانے والوں پر بھی حملہ آور ہو کر انہیں اس بیماری میں مبتلا کر سکتا ہے۔ ایسی خطرناک صورت حال ڈاکٹرز، نرسیں اور تمام پیرا میڈیکل عملہ دن رات ان مریضوں کو صحت یاب کرنے کی کوششوں میں اپنی جان جوکھوں میں ڈالے ہوئے مصروف عمل ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان ڈاکٹروں اور تمام مددگار عملے کو ابھی تک عالمی معیار کی حفاظتی کٹس مہیا نہیں کی گئیں کیا یہ بھی کہنے کی ضرورت ہے کہ حفاظتی کٹس کے بغیر ڈاکٹروں اور مددگار عملے کی زندگی مسلسل خطرے سے دوچار ہے؟
ایسے میں اگر ڈاکٹرز اپنے جائز حق اور زندگی کی حفاظت کے لئے آواز اٹھاتے ہیں تو پنجاب کی وزارت صحت کی جانب سے نہیں ان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چند روز پہلے جواں ڈاکٹر اسامہ ریاض کی شہادت کی خبر آئی جو گلگت بلتستان میں ایران سے آئے زائرین کی سکریننگ بغیر حفاظتی کٹ پہنے کرتے رہے اور رات بھی تھی اندھیری چراغ نہ دیا۔ جیسی اس خطرناک صورت میں بالآخر انہیں بھی کرونا وائرس لاحق ہو گیا۔ چند دن موت و حیات کی شدید نکلیف میں وینٹی لیٹر پر گزرے اور پھر جواں سالی میں چل بسے۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض تو بے شک شہادت کے درجے پر فائز ہوئے ہیں۔ ایک تو فرائض کی ادائیگی میں موت آئی اور دوسرا رسول کریمؐ کی حدیث کے مطابق وبائی مرض میں مرنا شہادت ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ڈاکٹر اسامہ کی موت سے تمام ڈاکٹروں میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ حفاظتی کٹس کیوں نہیں دی گئیں۔ کوئی ان ڈاکٹروں نرسوں اور ان کے مددگار عملے کے والدین سے پوچھے، جن کی اولادوں کی زندگیاں ایسے خطرے سے دوچار ہیں۔ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد اور ڈاکٹروں کے درمیان ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے۔ ڈاکٹر حفاظتی کٹس اور ماسک N95 کا مطالبہ کرتے ہیں تو ڈاکٹروں کے بقول وہ اسے ڈاکٹروں کی سیاست قرار دیتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشن نے آغاز میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ تمام ہسپتالوں کی او پی ڈی بند کر دی جائیں کیونکہ روزانہ اوپی ڈیز میں سینکڑوں مریض آتے ہیں اور کیا خبر ان میں سے کون کرونا کا کیریئر ہو۔ اس سے مرض پھیلنے کا اندیشہ ہے اور یہ ڈاکٹروں کا بالکل جائز مطالبہ تھا مگر وزیر صحت اس کا اس مطالبہ پر کہنا تھا کہ ینگ ڈاکٹرز ہڑتال پر جانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
اب حالات یہ ہیں کہ وزیر موصوفہ ڈاکٹروں کے جائز اور حقیقی مطالبات سمجھنے سے قاصر ہیں جبکہ کرونا وائرس کی جنگ میں ڈاکٹر اور نرسیں، ہر اول جتھے کی طرح اگلے مورچوں پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کہیں کہیں ہاتھوں اور منہ پر شاپر چڑھائے ہوئے ڈاکٹر مریضوں کی سکریننگ کرتے رہے۔ ابھی ایک معروف صحافی کی ایک پوسٹ نظر سے گزری صوابی کے علاقے میں ڈاکٹروں نے حفاظتی کٹ کے طور پر شاپر منہ پر چڑھائے ہوئے ہیں۔ نااہلی صرف شدید نااہلی۔ یہ ہے کہ کپتان کی حکومت کی کارکردگی کرونا کا پھیلائو یہاں اب شروع ہوا جبکہ چائنا میں تین ماہ سے پہلے کرونا کے پھیلائو کی بدترین صورت حال تھی اس وقت حکومت کے پالیسی میکرز کہاں تھے؟
یاسمین راشد جن سے ہمیں بہت امیدیں ان کے کھردرے رویے اور کارکردگی نے بہت مایوس کیا ہے۔ پریس کانفرنسوں میں ٹی وی چینلز کے رپورٹروں کو بھی دھمکیاں دیتی اور ڈانٹتی دکھائی دیتی ہیں۔ کرونا کے خلاف ایک مشکل جنگ لڑتے ہوئے ڈاکٹرز اور نرسیں اپنی زندگیاں دائو پر لائے ہیں انہیں حفاظتی کٹس کے ساتھ ساتھ حوصلے تحسین کی بھی ضرورت ہے۔ پنجاب کی بات کریں تو ڈاکٹر یاسمین راشد صوبائی وزیر کی حیثیت سے ان کی بڑی ہیں۔ انہیں بڑا پن دکھانا چاہیے جبکہ وہ اپنے Bossy طرز اور احساس سے عاری طرز عمل کی وجہ سے ڈاکٹر اور اپنے درمیان اعتماد اور اعتبار کے رشتے کو کھو رہی ہیں۔ کیا انہیں خبر ہے کہ ان کے اس رویے کی وجہ سے ڈاکٹرز انہیں ہیلتھ سنٹر کی بجائے ڈیتھ منسٹر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔؟
انتہائی نازک موقع پر یہ خطرناک صورت حال ہے کہ کرونا وائرس کی اس غیر معمولی خطرناک جنگ میں ہمارے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ محاد جنگ پر جتی ہوئی سفید کوٹوں والی اس آرمی کی سپہ سالار پنجاب میں آپ ہی ہیں یاسمین راشد صاحبہ خدارا ان کی حفاظت یقینی بنانا ضروری ہے، سفید کوٹوں والی اس بہادر آرمی کو OWN کیا جانا چاہیے!