اللہ کا کروڑوں بار احسان ہے جس نے اتنے بڑے جیون ساگر میں ہم کو پاکستان کی شناخت دی۔ دنیا کے 195ملکوں کے جھنڈوں میں سبز رنگ کا سب سے پیارا شیڈ ہمارے سبز ہلالی پرچم کا ہے۔ اس پر جگمگاتا چاند اور ستارہ شناخت کی روشنی سے ہمیں مالا مال کرتا ہے۔ دیکھیے پروین شاکر نے اپنے سبز پرچم کو دیکھا تو کیسے دلار سے یہ شعر کہا:
ننھے سے ایک ستارے کی کیا روشنی مگر
پرچم پہ آ گیا تو بہت چاند پر کھلا
195ملکوں کے ہجوم میں اپنا سبز ہلالی پرچم لہرائے تو دل و روح ساتھ ہم رقص ہو جاتے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارتخانے کی عمارت بہت خوب صورت اور پرشکوہ ہے۔ دور سے ہی پاکستان کا سبز ہلالی پرچم امریکہ میں لہراتا دکھائی دیا تو دل کو ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا۔ یہ اپنے آپ کو شناخت کرنے جیسا عمل تھا، جیسے سامنے کوئی آئینہ رکھ دے اور ہم اپنے خدوخال دیکھنے لگیں۔ اربوں لوگوں کے اس وسیع و عریض سمندر میں اپنی دھرتی سے وابستگی کا احساس ہی انسان کو دولت مند کر دیتا ہے۔ پردیس کے برزخ میں اپنی زندگیاں گزارنے والے خوب جانتے ہیں کہ اپنی مٹی، اپنی دھرتی، اپنے دیس کی وابستگی کیا کیسے دھوپ سی چھائوں جیسی ہوتی ہے ڈالر درہم و دینار خوشحالی کے سارے موسم بھی اس ایک پل کا نعم البدل نہیں ہو سکتے جو آپ اپنے وطن کی فضائوں میں بسر کرتے ہیں، پردیس کے برزخ میں رہنے والے ہمیشہ واپسی کے منتظر رہتے ہیں۔ باکمال و ممتاز شاعر افتخار عارف کے قلم سے نکلی ہو دعا دیکھیے:
نگری نگری گھومے پر گھر لوٹ کے آنا بھولے نا
اللہ سائیں ڈار سے بچھڑی کونج ٹھکانا بھولے نا
ڈار سے بچھڑی کونج ہمیشہ واپسی کی منتظر رہتی ہے کیونکہ زندگی میں اپنی ذات سے جڑے ان گنت حوالوں میں اپنے وطن کا حوالہ بہت اہم بہت معتبر ہوتا ہے، اس حوالے کے لئے تو سرفروش جان سے گزر جاتے ہیں افتخار عارف کا ہی ایک اور شعر پڑھیے:
مری زمیں مرا آخری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کر دے
اپنا وطن ہمارے گرد تحفظ کا سب سے بڑا دائرہ ہوتا ہے، اس دائرے کے اندر چھوٹے چھوٹے بے شمار دائرے ہیں، جن کے حصار میں ہم اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ بجا کہ میرے وطن میں مسائل کے مائونٹ ایورسٹ ہیں۔ قدم قدم پر زندگی نئی مشکلات سے دوچار ہوتی ہے۔ اہل اختیار اور اہل اقتدار کی کرپشن نے ادارے تباہ کر دیے۔ بہت مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، مسائل کی طویل فہرست گنوائی جا سکتی ہے لیکن اس کے باوجود اس وقت جو کچھ بھارت میں مسلمانوں پر بیت رہی ہے جو ظلم مسلمانوں پر ہو رہا ہے ہم اسے دیکھیں تو ہمیں احساس ہو گا کہ ہم ان تمام مسائل کے باوجود اپنے وطن میں اپنے ملک میں سر اٹھا کر جی رہے ہیں، ہماری عبادتیں تہوار میل ملاپ ہماری زندگی کا ہر رنگ آزادی کی اس فضا میں کتنا آسودہ اور خوش رنگ ہے۔ اس نعمت کی قدر کریں اس نعمت پر رب دوجہاں کا کروڑوں بار شکر کریں اور اپنے وطن اپنی دھرتی اپنے گھر کو ہر لمحہ پہلے سے بہتر بنانے کے لئے ہم سب اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
ایک چیز جس کا مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل میں وطن سے لگائوں اور وابستگی کا وہ جذبہ نہیں پایا جاتا، جو اس سے پہلے والی نسل میں تھا۔ آج آپ کسی نوجوان سے بات کریں اس کی پہلی خواہش یہ ہو گی کہ کسی طرح ملک سے باہر چلا جائے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے ذہین اور قابل نوجوان اپنے وطن میں اپنا مستقبل روشن نہیں دیکھتے۔ ہم کیوں یہاں تک پہنچے، اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا، نو سال کا ایک بچہ بھی جب ہر کھلولنے پر میڈ ان چائنا پڑھتا ہے تو سوال کرتا ہے کہ پاکستان میں ہم کیوں نہیں کھلونے بنا سکتے اور کچھ ایسے سوال بھی کر جاتا ہے کچھ ایسی باتیں بھی کہہ جاتا ہے جو کالم میں لکھی نہیں جا سکتیں اب انٹرنیٹ کا دور اور ہمارے بچے اس سہولت کی بدولت اپنے ملک کا موازنہ پوری دنیا سے کرتے ہیں اور اس بنیاد پر سوال کرتے ہیں۔ ہم اپنے بچپن میں معصوم سیدھے سادے سے تھے۔ ہر سال 14اگست کو ہری جھنڈیوں سے گھر کو سجاتے۔ گھر پر پاکستان کا پرچم لہراتے۔ لیکن مجھے حیرت ہوتی کہ میرا بیٹا بہت عملیت پسند ہے۔ اسے جھنڈیاں لگانے سے کوئی دلچسپی نہیں، پچھلے سال اس نے کہا کہ میں جھنڈیاں نہیں بلکہ پودے لگائوں گا کیونکہ پودے بھی تو گرین ہوتے ہیں۔ بلا شبہ یہ ایک شاندار تجویز تھی سو ہر سال اگست میں پاکستان ڈے کے حوالے پودے لگائے جاتے ہیں، پچھلے سال اس نے اپنے بابا کے ساتھ مل کر اپنے سکول کے باہر بھی تین فٹ کا پودا لگایا جو چند سالوں میں بوہڑ کا درخت بن جائے گا اور چھٹی کے وقت سکول کے گیٹ پر بچوں کا انتظار کرنے والوں کو چھائوں فراہم کرے گا۔ چند روز پہلے حکومتی مہم کے تحت لاکھوں پودے لگائے گئے اصل کام اب ان کی حفاظت ہے۔ پودے جاندار ہیں پرورش کے لئے وقت اور توجہ دونوں مانگتے ہیں۔ ان پودوں کو توجہ مل گئی تو وطن کی دھرتی سبز پوشاک اوڑھ لے گی۔
قدرت نے اس بار تھر کے صحرائوں پر گھنی گھٹائیں برسائیں کہ تھر کا صحرا گل و گلزار ہو گیا، سبز پوشاک میں لپٹی ہوئی یہ تصویر سوشل میڈیا پر ہم جیسوں نے حیرت سے دیکھیں اور دعا کی:
ہر آنکھ تجھے پیرہن سبز میں دیکھے۔ !
اے کاش کہ تادیر یہ پوشاک نہ بدلے
آج 14اگست اپنی نعمتوں کا شمار کرنے لگیں تو پاکستان کو سرفہرست رکھیے گا، ہماری زندگی کی تمام تر آسودگیاں اسی وطن کے ہونے میں ہیں :مظفر وارثی نعت کے کیسے باکمال شاعر تھے، ان کی ایک منفرد نعت کے چند شعر دیکھیے اور وطن سے ان کی وابستگی کا اندازہ لگائیے:
میں انؐ کے راستے کی خاک لوں گا
میں سب سے قیمتی پوشاک لوں گا
حضورؐ آئیں گے جب میری لحد میں
زمین سے قیمت افلاک لوں گا
اگر پوچھی مری خواہش انہوں ؐ نے
تو استحکام ارض پاک لوں گا