گورا ٹھیک ہی کہتا ہے:governments are supposed to lie to their citizens.
حقیقت بھی یہی ہے کہ حکمرانوں کو جھوٹ بولنے کا وائرس ہمیشہ سے ہی لاحق ہوتا ہے۔ ہر حکومت عوام کے ٹیکسوں کے قیمتی پیسے سے اپنی اس کارکردگی کا ڈھول پیٹتی نظر آئی ہے، جو عوام کو کبھی دکھائی ہی نہیں دی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جھوٹ کے وائرس کا جوvariant تحریک انصاف کی حکومت کو لاحق ہے وہ زیادہ خطرناک اور تشویش کا باعث ہے۔ جس طرح تین سال مکمل ہونے پر چشم طرب بپا کیا گیا، اس پر صرف حیرت ہی ہوسکتی ہے۔ اس جشن طرب میں عوام کے جس طبقے کے مزید خوشحال ہونے پر خوشیاں منائیں گئیں، وہ بائیس کروڑ عوام میں سے پانچ سے دس فیصد طبقہ ہوگا، جو لاکھوں کی گاڑیاں خریدنے کی سکت رکھتا ہے۔
ہمارے وزیراعظم صاحب نے عوام کی قسمت بدلنے کی جو خوشخبریاں اس جشن طرب میں ہمیں گوش گزار کیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی، ان کے دور حکومت میں گاڑیاں اور ٹریکٹر کی ریکارڈ توڑ خریداری ہوئی ہے، اس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ عوام تحریک انصاف کی حکومت میں خوشحالی کے کئی سنگ عبور کر چکی ہیں۔
حکمرانوں کے اس جشن طرب کی خبر سفید پوشی کے برزخ میں زندگی کرنے والے لاکھوں خستہ حال پاکستانی گھرانوں تک پہنچی اور بدترین غربت کے پاتال میں سانس سانس زندگی کا زہر پیتے کروڑوں مفلوک الحال پاکستانیوں تک پہنچی، تو ان کے زرد چہروں پر ایک ہی سوال تھا کہ وزیر اعظم صاحب!آخر کیوں خوشحالی کی ان موسلادھار بارشوں کا چھینٹا تک ان کی زندگی کے جلتے بلتے صحراؤں پر نہ پڑا۔ وہ میرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ آخر کیوں برس گئیں۔
کیوں نئے پاکستان میں آنے والی یہ خوشحالی اس کے تاریک گلی محلوں میں کھیلتے ننگ دھڑنگ بچوں کے زرد چہروں پر نہ کھلکھلائی۔ وطن عزیز میں آنے والی یہ خوشحالی ٹاٹ کے پھٹے پردوں کے پیچھے سانس لیتی عسرت زدہ زندگیوں پر کیوں نہ آئی۔
ایک طرف لاکھوں کی گاڑیاں ریکارڈ توڑ فروخت ہونے لگیں مگر ان کے لیے تو زندگی کی بنیادی ترین ضرورتوں کا حصول بھی ان کی ہلکی جیب کے سامنے کے ٹو کا پہاڑ سر کرنا دکھائی دیتا ہے۔ سفید پوش اور غریب ترین طبقے کے علاوہ ملک کا مڈل کلاس طبقہ بھی وزیراعظم سے یہی سوال کرتا دکھائی دیتا ہے، کیا اس جشن طرب کی وجہ کیا ہے، زندگی تو ان کے لئے بھی مشکل ہوگئی ہے، ان کے لیے بھی روز بروز بڑھتی مہنگائی نے زندگی کا بھرم قائم رکھنا مشکل ہورہا ہے۔
حکومت کا بنیادی کام عوام کیلئے مہنگائی کنٹرول کرنا ہے تاکہ کم از کم زندگی کی بنیادی ضرورتوں سہولت سے فراہم ہوتی رہیں، اس باب میں حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہیں۔ حکومت کا دوسرا اہم کام عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے اور امن و امان کو یقینی بنانا ہے۔ سانحہ ساہیوال متاثرین کو ٹیسٹ کیس بنانے کا دعوی خود وزیر اعظم نے قطر میں بیٹھ کر کیا تھا، وزیراعظم تو خود ملک تشریف لے آئے مگر انصاف کی فراہمی کا وعدہ کہیں راستے میں رہ گیا۔ امن و امان کی صورتحال کیسی ہے اس کا تازہ ترین مظاہرہ یوم آزادی پر ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے گزشتہ تین سالوں میں مہنگائی پراسرار انداز میں بڑھتی چلی جارہی ہے۔
کشف فاؤنڈیشن کی ایک تحقیق کے مطابق 2020 میں پاکستان کا ایک عام گھرانہ اپنی آمدنی کا 30 فیصد کھانے پینے کی اشیاء پر خرچ کرتا تھا چند مہینوں کے فرق کے بعد 2021 میں یہی گھرانہ اپنی آمدنی کا چالیس فیصد کھانے پینے کی اشیاء پر صرف کررہا ہے۔ یوں اس کے خورونوش کے اخراجات میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ وزیراعظم کن بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں خوشحالی آئی ہے۔ مہنگائی کی شرح ہر ماہ پہلے سے زیادہ ہورہی ہے، یہاں تک کہ ادویات کی قیمتوں میں تحریک انصاف اپنے تین سالہ دور میں بارہ دفعہ اضافہ کرچکی ہے۔ حکومت پانچ سو فیصد تک دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ کرکے مفت علاج کے دعوے کس منہ سے کررہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ماہانہ دوباراضافہ کرکے مجموعی طور پر زندگی عام آدمی پر مسلسل تنگ کی جارہی ہے۔
ان حالات میں اگر تین سال مکمل ہونے جھوٹی کامیابیوں پر جشن منانے کی بجائے یہ سچا احساس ہی کرلیا جاتا کہ عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے تو یہ بھی زخموں پر مرہم رکھنے والا رویہ ہوتا۔ کرپشن کو دور کرنا تحریک انصاف کے منشور کی بنیاد تھا، اب صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم کی ٹیم کے بنیادی افراد پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ سکینڈل سامنے آتے ہیں لیکن چونکہ قانون کا سرکار کے لوگوں پر اطلاق نہیں ہوتا اس لیے راوی سب چین ہی چین لکھتا ہے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ وزیر اعظم کے لاڈلے ہیں، سو ان کی تعریف میں ہمارے خان صاحب رطب اللسان رہتے ہیں۔ کارکردگی یہ ہے شہر میں صفائی کا نظام بہتر سے بدترین ہوچکا ہے۔ وزیراعظم دعوی کرتے ہیں کہ ان کی حکومت نے غریبوں اور بے سہارا لوگوں کے لیے بہت کام کیا ہے۔ اس ضمن میں کارکردگی یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں بچیوں کا یتیم خانہ کاشانہ ہوا کرتا تھا جو ان کی حکومت میں بند پڑا ہے۔
بچیوں پر جنسی ہراسانی کو سامنے لانے والی۔۔ کاشانہ کی سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف نوکری سے نکال دیا گیا اس کے گھر کو جلا دیا گیا افشاں لطیف اور اس کے شوہر کو جیل کی ہوا کھانی پڑی وہ خود ضمانت پر رہا ہے جبکہ شوہر ناحق جیل میں ہے۔
ستاون یتیم بچیوں کے بارے میں نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں اس سے زیادہ حساس نوعیت کا انسانی حقوق کا معاملہ کوئی اور ہوسکتا ہے مگر بے آسرا لوگوں کی مسیحا حکومت اس پر خاموش ہے۔ یہ ہے تین سالہ کارکردگی۔۔ !