کافی دیر سے خالی کاغذ سامنے رکھے سوچ رہی ہوں، اس انوکھی گفتگو کی خوشبو کیسے کالم میں سمیٹوں۔
ہم نے عموماً شاعروں ادیبوں کی بیگمات کو اپنے شوہر کی شہرت اور ناموری سے ذرا بیزار ہی دیکھا ہے۔ مگر یہ بیگم ناہید منیر نیازی بھی کمال کی عورت ہیں۔ رانجھا، رانجھا کر دی، آپے رانجھا ہو چکی ہیں۔ منیر نیازی کی یادوں کو باتوں میں ڈھالتی ہیں تو سننے والا اس بہائو میں حیرت سے بہتا چلا جاتا ہے۔ یہ کالم کا نہیں افسانے کا موضوع ہے۔ مگر کیا کروں کہ مجھے تو سردست کالم ہی لکھناہے۔
وہ گزشتہ 36 برسوں سے، منیر نیازی کو جیئے چلی جا رہی ہیں۔ 1985ء کا سن تھا۔ جب وہ بیگم منیر نیازی بنیں۔ ان کی عمر 32برس تھی اور ہمارے شاعر طرح دار اس وقت ستاون برس کے شہزادے۔ شہر جمال کے یوسف تھے۔ شہر میں زلیخائوں کی کمی نہ تھی۔ مگر پہلی بیگم کی وفات کے بعد ناہید ان کی شریک سفر بنیں۔ عمروں میں پچیس کا تفاوت جسے محبت اور رفاقت نے مٹا دیا تھا۔ اپنی زندگی کے اکیس برس انہوں نے منیر نیازی کی زندگی میں ان کے ساتھ گزارے اور اب شاعر کو غروب ہوئے پندرہ برس ہونے کو آئے ہیں۔ بیگم ناہید نیازی کی زندگی کا ہر پل آج بھی منیر نیازی کی یادوں کی گلی سے ہو کر گزرتا ہے۔ اچھا تو پھر آپ نے جب مشاعرے میں نیازی صاحب کو دیکھا تو آپ کو کیسے لگے؟ میں نے سوال کیا۔
ہاں اس رات پی ٹی وی پر ایک مشاعرہ تھا۔ اس میں پہلی بار نیازی صاحب کو شعر پڑھتے ہوئے دیکھا۔ مجھے تو بہت اچھے لگے۔ ان کی شخصیت تھی ہی ایسی۔ اتنا حسن و جمال ان کی شخصیت میں تھا۔ وہ جو صغریٰ صدف ہے نا پلاک والی، اس نے نیازی صاحب پر ایک مضمون لکھا تھا۔ شہر جمال کا یوسف۔ وہ اکادمی ادبیات نے اپنے رسالے میں چھاپا تھا۔ اس میں صغریٰ صدف نے ایسا اچھا نقشہ کھینچا ہے کہ نظر کے سامنے پوری تصویر آ جاتی ہے"میں بیگم نیازی کی باتیں سن کر حیرت میں گم تھی۔ نیازی صاحب پر لکھا ہوا ہر مضمون انہیں، میگزین کے نام اور لکھاری کے نام کے ساتھ یاد تھا۔
نیازی صاحب، سچی، کھری مگر کڑوی بات بغیر کسی تردد کے کہہ دیتے تھے۔ چاہے سننے والے کو کتنا بھی برا لگے۔ گھر میں وہ کیسے مزاج کے تھے۔ آپ کو بھی ایسے ہی کڑوی باتیں کہہ دیتے تھے؟ میں نے کریدنا چاہا۔ نیازی صاحب بہت اچھے بہت خیال رکھنے والے تھے۔ میرا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے۔ سردیوں کے دن تھے۔ بارش ہونے لگی میں چھت سے تار پر ڈالے ہوئے کپڑے اتارنے کے لئے جانے لگی تو نیازی صاحب نے مجھے تولیہ دیتے ہوئے کہا اسے سر پر لے کر جائو، بارش میں بیمار نہ ہو جانا۔ اب بھی بارش ہوتی ہے تو مجھے ان کی یہ بات یاد آتی ہے۔
وہ سخت نہیں تھے۔ بس صاف گو تھے۔ جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ وعدہ کر لیا تو کبھی نہیں توڑتے تھے۔ وہ کسی بچے کی طرح معصوم اور سادہ دل رکھتے تھے۔ پیسوں کا حساب کتاب بھی انہیں نہیں آتا تھا۔ بحیثیت شریک زندگی آپ نے منیر نیازی کے شب و روز قریب سے دیکھے۔ کچھ بتائیے کہ شعر کہنے کی کیفیت کیا ہوتی تھی؟
شعر تو کبھی بھی ان پر اتر آتے تھے۔ کبھی رات کو سوئے ہوئے ہیں۔ اٹھ کر بیٹھ گئے اور لکھنے لگے۔ کبھی کوئی ایک آدھ مصرع اترا تو مجھے آواز دیتے کہ ناہید ذرا یہ ایک مصرع ڈائری میں لکھ دو۔ باقی صبح دیکھوں گا۔ کبھی شیو کرتے ہوئے بھی مجھے آواز دیتے کہ جلدی سے یہ مصرع میری ڈائری میں لکھ دو۔ ان پر شعر اترتے تھے کئی دفعہ میں نے یہ بھی دیکھا کہ شعر کہنے کی کیفیت میں کچھ بے خبر سے ہو جاتے۔ کبھی ایسے لگتا کہ جیسے ہلکے ہلکے کانپ رہے ہوں۔ نعت کہتے ہوئے احترام اور عقیدت کو بہت ملحوظ رکھتے۔ خاص طور پر درود پاکؐ کی تسبیحات کرتے۔ ویسے ان کا معمول تھا اکثر قرآن پاک بھی باترجمہ پڑھتے تھے۔ ناہید نیازی صاحبہ نے منیر نیازی نے دو نعتیہ شعر بھی سنائے۔ اس کے علاوہ بھی نیازی صاحب کے شعر اور مصرعے۔ ان کی زبان پر آتے رہے۔ وہ کلیات منیرؔ اپنے سرہانے رکھ کر سوتی ہیں۔ جب نیازی صاحب سے بات کرنے کو جی چاہا ان کی کلیات کھولی اور اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ بہت سا کلام انہیں ازبر ہے۔
ہر برس 9 اپریل کو منیر نیازی کی سالگرہ کا اہتمام ان کے گھر بھی ہوا کرتا تھا۔ شاعر کے رخصت ہونے کے بعد بھی بیگم ناہید نیازی سے اپنایت کا اظہار کرنے مداح اور شاعر ان کے گھر آتے ہیں، وبا کے پنجوں میں جکڑا ہوا یہ دوسرا برس ہے کہ گھر پر منیر نیازی کے مداح نہیں آ سکیں گے۔ بیگم ناہید نیازی اس پر کچھ اداس ہیں:اچھا اپنی کوئی پسندیدہ نظم تو سنائیے:مجھے تو ساری شاعری پسند ہے مگر ایک نظم بہت زیادہ دل کو ڈھارس دیتی ہے نیازی صاحب کے وفات کے بعد جب میں عدت میں تھی رنج و غم اور اداسی بلاکی تھی۔ غم کے ان دنوں میں ایک شام اچانک یہ نظم مجھے یاد آئی۔ لگا کہ نیازی صاحب کہیں قریب مجھ سے کہہ رہے ہیں:
ستارے جو دمکتے ہیں
کسی کی چشم حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمال ابر باراں میں
یہ ناآباد وقتوں میں
دل ناشاد میں ہو گی
محبت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب
یہ دنیہ ان کی یاد میں ہو گی
سچ یہ ہے کہ یہ کوئی خاص محبت ہے جو جدائی کے نا آباد وقتوں میں بیگم ناہید نیازی کے دل ناشاد کوا سیرکیے ہوئے ہے۔ ڈھارس دیے ہوئے ہے۔