کہاں تھی وزیر اعظم کی کورونا ٹائیگر فورس جس نے گلی محلوں، بازاروں، مارکیٹوں میں، کورونا ایس اوپیز پر شہریوں سے عملدرآمد کروانا تھا۔
ازخود تو پاکستانیوں نے ایسے مہذب پن کا مظاہرہ کرنا نہیں تھا۔ تربیت اور احساسِ ذمہ داری اگر لوگوں میں ہوتا تو پھر ہم ایک ہجوم ایک بھیڑ تھوڑے میں ہوتے ایک مہذب قوم ہوتے!
عوام تو جو ہے سو ہے۔ حکمران بھی بس اعلانات اور خالی بیانوں سے آگے نہیں جاتے۔ عین کورونا کے مشکل ترین دنوں میں ٹائیگر فورس کا اعلان ہوا۔ کئی بار وزیر اعظم ان سے خطاب فرما چکے ہیں۔ تعریفیں کرنے نہیں تھکتے، لیکن آج تک ان کی کارکردگی کی ہلکی سی جھلک ہی سامنے نہیں آئی۔
اگر واقعی 10لاکھ رضا کار رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور ان کے ذمہ یہ کام تھا کہ کورونا کے خلاف حفاظتی تدابیر کو یقینی بنائیں تو ہماری گنہگار آنکھوں نے یہ کام ہوتا کہیں نہیں دیکھا، حکومت اور اپوزیشن خود جلسے جلوسوں میں مصروف رہی۔ بازاروں، مارکیٹوں میں تو خاص طور پر بے احتیاطی دیکھی گئی۔ سو ستمبر میں کنٹرول ہوتی ہوئی صورت حال اب پھر بگڑ رہی ہے۔ کورونا پھیلائو کے پیش نظر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ یعنی تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے۔ چھ ماہ کے طویل ترین پڑھائی کے وقفے کے بعد ستمبر کے وسط میں سکول کھلے تھے کہ تیسرے مہینے کے اختتام سے پہلے ایک اور لاک ڈائون کی نذر ہو گئے۔
اب بچے ایک بار پھر گھروں میں بند ہو گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کے پاس کیا آپشن ہوں گے؛ اگرچہ وزیر تعلیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آن لائن کلاسیں جاری رہیں گی لیکن آن لائن کلاس کسی بھی طرح ریگولر کلاس کا نعم البدل نہیں ہوتی۔ میں اس کالم میں آٹھویں تک کے بچوں کی بات کر رہی ہوں۔ مڈل سٹینڈرڈ تک طالب علم آن لائن کلاسوں میں سو طرح کی رکاوٹیں درپیش رہتی ہیں۔ بجلی نہیں کبھی انٹرنیٹ نہیں۔ کبھی سسٹم میں کوئی Errorہے۔ پھر چھوٹے بچے تو خاص طور پر سکرین کے سامنے بیٹھ کر جلد ہی بوریت محسوس کرنے لگتے ہیں کیونکہ ریگولر کلاس روم میں ان کی پڑھائی ایکٹویٹی بیسڈ ہوتی ہے۔ ٹیچر بھی ننھے طالب علموں کی دلچسپی اور توجہ حاصل کرنے کے لیے کئی طرح کے ایجوکیشنل ٹولز استعمال کرتی ہیں۔ معذرت خواہ ہوں، مجھے ایجوکیشنل ٹولز کے لیے اردو میں کوئی مناسب ترجمہ نہیں ملا۔ تو ایسی کلاسیں، بوریت سے بھری ہوتی ہیں جس میں نہ ٹیچر کا چہرہ دکھائی دے، نہ ہی کلاس فیلوز کے چہرے نظر آئیں اور نہ ہی کوئی دلچسپ سرگرمیاں بچوں کی توجہ کو اپنے ساتھ باندھ رکھیں۔
چلیے! اب بھی مان لیتے ہیں کہ آن لائن کلاسوں سے بچے کچھ نہ کچھ پڑھائی سے جڑے رہتے ہیں اور کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ لیکن ایسی آن لائن کلاسیں بھی صرف پاکستان کے چند فیصد طالب علموں کو میسر ہوں گی۔ ستر فیصد طالب علم، سرکاری سکولوں میں جاتے ہیں یا پھر ایسے پرائیویٹ سکول جو کم فیس لیتے ہیں، گلی محلوں میں کھلے ہوئے ہیں، وہاں آنے والے طالب علم نہ تو گھروں میں انٹرنیٹ، لیپ ٹاپ کی رسائی رکھتے ہیں نہ ہی ان کے سکولوں کے پاس نیٹ ورکنگ کا ایسا سسٹم موجود ہے کہ وہ اپنے بچوں کو آن لائن پڑھا سکیں۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس مسئلے کا یہ حل پیش کیا کہ بچوں کو ہوم ورک دے دیا جائے گا اور وہ ان چھٹیوں میں ہوم ورک کریں گے۔ اب حکومتی فائلوں میں لاک ڈائون ہو گیا۔ سکول بند کر دیئے گئے لیکن اصل میں یہ ہو گا کہ بچے، سکول نہیں جائیں گے تو اکیڈمیوں اور ٹیوشن سنٹروں میں چار چار گھنٹے کے لیے بالکل ایسے ہی باقاعدگی سے جایا کریں گے جیسے سکولوں میں جاتے ہیں۔ پہلے لاک ڈائون میں بھی یہی ہوا تھا۔ میں ایسے بہت سے بچوں کو جانتی ہوں جنہوں گزشتہ لاک ڈائون میں صرف ماہِ رمضان میں چھٹیاں کی تھیں۔ وہ مسلسل اپنی اکیڈمی اور ٹیوشن سنٹرز میں پڑھنے کے لیے جاتے رہے پھر سکول بند کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟ سکولوں میں تو پھر بھی ایس او پیز پر عمل ہو رہا تھا جبکہ گھروں میں کھولے گئے ٹیوشن سنٹرز میں باہمی فاصلہ اور دیگر حفاظتی تدابیر پر کب عمل ہو سکتا ہے۔ بہتر تھا کہ سمارٹ لاک ڈائون والی حکمت عملی اپنائی جاتی جو سکول ایس و پیز پر عمل کر رہے ہیں۔ وہ کھلے رہنے چاہئے تھے۔ سرکاری سطح پر تعلیمی اداروں میں سپر ویژن کا نظام زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت تھی لیکن بہتر ہوتی صورت حال ایک بار پھر لاپرواہی اور غیر ذمہ داری سے بگڑ رہی ہے۔
آغاز میں پنجاب حکومت نے بھی شہریوں کے لیے ہاتھ دھونے کا انتظام بہتر انداز میں کیا تھا۔ لاہور میں اہم مقامات پر کلورین ملے پانی کے ٹینکر کھڑے کر دیئے تھے۔ اس طرح لوگوں کو ہاتھ دھونے کی اہمیت کا پیغام بھی ملتا ہے۔ لیکن پھر اس بنیادی حفاظتی تدبیر کو حکومت کی جانب سے ختم کر دیا گیا اور آج ہی خبر تھی کہ اب جبکہ پھر سے وبا پھیل رہی ہے شہر میں کہیں بھی واسا کی جانب سے کلورین ملے پانی کے ٹینکر کھڑے دکھائی نہیں دیتے۔
لوگوں کو خود بھی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ باہر نکلتے ہوئے ایک ماسک ٹھیک انداز میں پہن لینے سے ستر فیصد تک آپ بیماری کے جراثیم سے بچ سکتے ہیں۔ آپس کے میل ملاقات میں بھی فاصلہ رکھیں۔ اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے ادرک، دارچینی، شہد، لیموں کے قہوے کا استعمال کریں۔ سکول بند ہونے کی وجہ سے پریشان ہوتی مائوں سے یہ کہنا ہے کہ آپ پر اب زیادہ ذمہ داری آن پڑی ہے۔ کوشش کریں کہ پورے دن کا کوئی ٹائم ٹیبل بنائیں۔ پڑھائی اور کھیل کے اوقات مقرر ہوں۔ اپنے بچوں کو خود ٹائم دیں۔ نصابک ے علاوہ کہانیوں کی کتابیں ان کے ساتھ بیٹھ کر پڑھیں اور اس وقت کو بہتر انداز میں استعمال کریں۔ اللہ نے چاہا تو یہ وقت بھی گزر جائے گا۔