Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Zikar Do Kitabon Ka

    Zikar Do Kitabon Ka

    معروف کالم نگار حسین احمد پراچہ نے اپنے والد مولانا گلزار احمد مظاہری کی زندگی کو کتاب کی شکل میں سمویا ہے۔ کتاب کا نام ہے" مولانا گلزار احمد مظاہری، زندگانی -جیل کہانی" ایک بیٹے کا اپنے عظیم والد کو خراج عقیدت پیش کرنے کا کیسا خوبصورت انداز ہے۔ والد بھی وہ جو کئی حوالوں سے بڑی شخصیت تھے پوری زندگی جنہوں نے دین کی تبلیغ کے لئے وقف کر دی۔ اور اس فریضے کی ادائیگی کو صرف محراب و منبر تک محدود نہیں رکھا بلکہ میدان عمل میں آ کر بھی دین کی تبلیغ و ترویج کا کام کیا اور اس راہ میں آنے والی تمام تر مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔

    دین کے ساتھ ان کی کمنٹ کا اندازہ لگائیں کہ ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں جب جماعت اسلامی زیر عتاب رہی اور کوئی بھی مارشل لائی ہتھکنڈہ مولانا مظاہری کو ان کے مقصد سے دور نہ کر سکا۔ اس کتاب کو ہم خود نوشت نہیں کہہ سکتے کیونکہ مولانا کی زندگی کی کہانی ہم ان کے بیٹے کی زبانی سنتے ہیں اس کے علاوہ ایک اور دروازہ جسے کھول کر ہم ان کی زندگی کے شب وروز میں جھانک سکتے ہیں وہ ان کی جیل میں لکھی ہوئی ڈائریاں ہیں۔

    مولانا کی تحریر بھی بہت سادہ اور دل نشیں ہے۔ ان میں وہ صرف اپنے شب و روز کی کہانی ہی نہیں بیان کرتے بلکہ سماج اور سیاست اور جیل کے اندرونی حالات اور قیدیوں کی حالت زار پر بھی تبصرہ کرتے ہیں۔ کسی بھی تحریک میں شامل بہت سے ایسے ان ہیروز ہوتے ہی جو تعریف وتوصیف کی لائم لائٹ سے دور رہتے ہیں، مولانا گلزار احمد مظاہری بھی ایک ایسے ہی ان سنگ ہیرو تھے۔ جو دنیاوی ستائش کی تمنا کیے بغیر اپنے مقصد مخلص رہے۔

    ایوب کی ڈکٹیٹر شپ کے دور میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں ہر قسم کے مفاہمتی سمجھوتے کو ٹھکرا دیا۔ ان کے کمسن بیٹے نے دیکھا کہ کیسے ن کے والد کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر کی دیواروں پر اشتہار لگ جایا کرتے تھے۔ بلاشبہ خاندان کے لیے یہ کڑا وقت تھا مگر ان کی والدہ محترمہ نے اپنے بچوں کو سمجھا رکھا تھا کہ ان کے والد کی جیل اور قید سر جھکانے والی نہیں ہے بلکہ سر اٹھانے والی ہے، سو وہ اپنے والد کو اللہ کے دین کی راہ کے ایک جانباز سپاہی کی نظر سے دیکھنے لگے۔

    مولانا گلزار مظاہری بھیرہ کے ایک تجارت پیشہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے والد ایک مستحکم تاجر تھے اس دور میں ان کے والد کا کاروبار افغانستان مزار شریف اور قندھار تک پھیلا ہوا تھا لیکن انہوں نے اپنے والد سے اجازت لی کہ وہ تجارت کا پیشہ اختیار نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ دین کی تبلیغ اور ترویج کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں۔ دین کی ترویج اور تبلیغ کے لیے مولانا مزاحیہ نے اپنی بیشتر زندگی ریل اور جیل میں گزاری۔

    ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں جماعت اسلامی پر پابندیاں لگیں اور جماعت اسلامی کے کے رہنماؤں کو چن چن کر قید و بند میں ڈالا گیا۔ مولانا گلزار مظاہری نے ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ کے دور میں شاہی قلعے کی بدترین قید برداشت کی۔ کتاب دلچسپ ہے، مولانا کی دوران جیل لکھی ہوئی ڈائریوں میں ایک طرف تو مارشل لاء کے دور میں ناجائز قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ایک عالم دین کے شب وروز کا پتہ چلتا ہے تو دوسری طرف اس دور کا سیاسی اور سماجی منظر نامہ ان روزنامچوں میں جھلکتا ہے۔ کسی بھی شخصیت کی زندگی کی کہانی پڑھ کر ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں کہ زندگی ہر ایک پر مختلف انداز میں کھلتی ہے۔

    اس کتاب میں ایک قالین کے ٹکڑے کا ذکر ہے ہے جو کہ مولانا گلزار احمد مظاہری کے والد حاجی عبدالمجید پراچہ نے 1937 میں افغانستان کے شہر مزار شریف سے بطور خاص بنوایا تھا۔ اس پر فارسی میں ایک دلنشین عبارت تحریر ہے جو دراصل ایک نصیحت ہے یہ نصیحت انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کے نام کی۔ پراچہ صاحب لکھتے ہیں کہ 1937 کا بنا ہوا قالین بوسیدہ ہوگیا تو انہوں نے اسے دوبارہ کسی کاریگر سے بنوا کر اپنے ڈرائنگ روم کی دیوار پر آویزاں کیا ہوا ہے۔ زندگی کے رمز سکھانے کا کیااچھا انداز ہے۔ بسم اللہ رحمان الرحیم کے بعد فارسی میں جو تحریر ہے اس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ رب ذوالجلال تمہیں نو آسمانوں کی بلندی عطا فرمائے تو نو چیزوں کو کبھی اپنی دعاؤں میں مت بھلانا۔

    ایمان، خوش بختی، دولت و فرخندگی کشادگی رزق، مسرت اور شادمانی، فتح و نصرت اور مہمانوں کی کثرت۔ اگر اللہ کی رحمت درکار ہے تو ان دونوں چیزوں کو اپنی دعاؤں میں اللہ سے طلب کرتے رہیں۔ بہت عمدہ کتاب ہے ضرور پڑھئیے۔ اب کچھ تذکرہ شاعری کا بھی ہوجائے۔"آرائش " نوجوان شاعر حسان احمد اعوان کی پہلی کتاب ہے۔

    حسان احمد اعوان چکوال سے تعلق رکھتے ہیں پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور خوش خیال شاعر ہیں۔ مضافات سے تعلق رکھنے والے تخلیق کاروں کی سوچ میں ایک خاص قسم کی حقیقت پسندانہ گہرائی ہوتی ہے۔ حسان کی شاعری میں زندگی کو پرکھنے کی یہ حقیقت پسندانہ گہرائی اس کے خوابوں کی اڑان کے ساتھ مدغم ہوکر ایک منفرد شعری دنیا تخلیق کرتی ہے سادہ اور چونکا دینے والے شعر دیکھئے

    دلوں میں بغض تھا سو بزم میں دھڑے ہوئے تھے

    ہم اپنے عہد کے پاتال میں پڑے ہوئے تھے

    اس سہولت پہ مجھ کو جانے دیا

    وہ سمجھتا رہا رکوں گا میں

    میری آنکھوں میں ہی آنسو تھے نہ غمگین تھا وہ

    ہاں بچھڑتے ہوئے دونوں نے اداکاری کی

    میں محبت کروں گا اور اس میں

    ہجر آیا تو صبر کر لوں گا

    اک سمندر کے سوکھ جانے سے

    سات دریا اداس تھوڑی ہیں۔۔ !

    ہمیں ہماری لچک ٹوٹنے نہیں دے گی

    بڑھیں گے دوسری جانب جو یاں دباؤ ہوا

    بہت عمدہ حسان! حقیقت سے جڑے رہو خواب دیکھتے اور شعر کہتے رہو۔۔ پہلی کتاب پر مبارک باد!