کرونا کے مہلک وار جاری ہیں۔ ساری دنیا میں بس کورونا کا رونا سنائی دیتا ہے۔ ایک ہی ذکر سب کی زبان پر ہے۔ خوف کی فضا ہے کہ جس نے اقوام عالم کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ لوگ ہاتھ ملانے ' باجماعت نماز ادا کرنے ' کسی جگہ جمع ہونے 'کسی کا جھوٹا کھانے سے تائب ہو چکے۔ اموات کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک پریشان ہیں کہ اس موزی مرض پر کیسے قابو پائیں۔ سوائے ایران کے تمام اسلامی ممالک اس کی تباہ کاریوں سے کسی حد تک بچے ہوئے ہیں اور جزوی طور پر متاثر ضرور ہوئے ہیں لیکن چائنا اٹلی سپین امریکہ والی صورتحال الحمدللہ اب تک نہیں ہے۔ احتیاطی تدابیر کے پیش نظر جو اب تک اپنائی جا رہی ہیں لگتا یہی ہے کہ اس وبا کی ہلاکت کاری سے اسلامی ممالک بہت تک محفوظ رہیں گے ان شاء اللہ۔
کہتے ہیں کہ سانپ کے زہر سے اس کا خوف زیادہ مہلک ہوتا ہے۔ کرونا سے احتیاط اپنی جگہ لازم سہی لیکن پورے ملک کو لاک ڈاؤن کرنے سے کئی طرح کے سماجی مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ کاروبار زندگی جمود کا شکار کیا ہوا لوگوں کو جان کے لالے پڑ گئے۔ دیہاڑی دار مزدور چھابڑی والے اور چھوٹے موٹے کام کرنے والے افراد کرونا وائرس کے ہاتھوں اتنا تنگ نہیں جتنا انہیں اپنے بچوں کو کھلانے پلانے کا غم کھائے جاتا یے۔ کرونا سے تنگ ہوں نہ ہوں بھوک سے ضرور نڈھال ہو گئے ہیں۔ امدادی رقوم کے اعلانات سے تو ان کے پیٹ بھرنے سے رہے۔ مجھے امداد کے حوالے سے کئی افراد سے بات کرنے کا موقع ملا۔ بہت سے افراد جنھوں نے میسج کیے انہیں جواب ملا کہ اپنے متعلقہ ضلعی انتظامیہ سے رجوع کریں۔ جب ان سے رجوع کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ اپنی رجسٹریشن مکمل کر چکے ہیں۔ کئی ایک کو تو یہ تک لکھ کر میسج کیا گیا کہ آپ اس امداد کے اہل نہیں ہیں۔ ایک بیوہ عورت کو جب یہی جواب ملا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کام کس قدر شفافیت کا حامل ہے۔ میں نے وزیر اعظم کی تقریر سن کر فیس بک پر لکھا تھا کہ اصل کمال امداد دینا نہیں اہل افراد کو دینا ہے اور انصافی حکومت کا یہ امتحان ہو گا کہ وہ اس مشن میں کیسے سرخرو ہوتی ہے۔ اب تک کی صورتحال یہی بتاتی ہے کہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور متاثرہ افراد کو ایک دھیلے کی امداد بھی ابھی تک نہیں پہنچ پائی۔ انھیں جو کچھ بھی ملا ہے وہ رفاعی اداروں اور صاحب ثروت افراد سے ملا ہے۔ حکومت کی ٹائیگر فورس فی الحال تو کسی جنگل میں ٹریننگ لے رہی ہے۔ وہاں سے تربیت حاصل کر کے ہی شہروں کا رخ کرے گی۔ انتہائی دکھ کا مقام ہے کہ جب یہ اعلان ہوا تھا کہ ہر گھر کے سربراہ کو امداد ملے گی تو پھر میسج بھیجنے کی بات کیوں کی گئی۔ افسوس تو یہ دیکھ کر ہوا کہ میسج بھی پیسوں سے ہوا۔ حالانکہ حکومت چاہتی تو موبائیل کمپنیوں کو پابند کر سکتی تھی کہ وہ یہ سروس بلا معاوضہ فراہم کریں۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ جب بندر بانٹیں تو وسائل نہیں انسان تقسیم ہوتے ہیں۔ انصاف اور اتحاد کی بات کرنے والوں کو مبارک ہو کہ وہ وسائل نہیں مسائل تقسیم کرتے ہیں۔ امداد بانٹتے نہیں امداد مانگتے ہیں اور منگتوں سے کچھ ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا ہے۔ ہماری سرائیکی میں کہتے ہیں
پندے کنوں پن تے اٹھ گھوڑا کھن
(فقیروں سے مانگو اور اونٹ گھوڑا پاؤ)
اس کہاوت میں چھپا طنز ظاہر و باہر ہے