مجھے آپ کو ایک قصہ سنانا ہے، سو بات کچھ لمبی ہوجائے گی، شاید دو تین اقساط میں چلی جائے۔ بہرحال یہ ایک تکون کی کہانی ہے، انسانی تکون جس کے تینوں اضلاع اب بکھر چکے۔ تاہم چوں کہ وہ سب حیات ہیں اور اپنے جوان بچوں کے ساتھ اپنی اپنی زندگی میں مصروف، سو میں کوئی نام نہ لکھوں گا اور مقامات کے نام بھی سب فرضی ہوں گے۔ ان کے نام ہم الف، بے اور جیم فرض کر لیتے ہیں۔ جیم چونکہ مؤنث ہوتی ہے، سو ہماری کہانی میں بھی یہ نسائی کردار ہے جبکہ باقی دونوں مذکر کے ذیل میں آتے ہیں۔
الف کا تعلق شہر سے دور ایک دیہاتی بستی سے تھا۔ والد کا چھوٹا موٹا زمیندارہ تھا مگر اس کا رجحان کاشت کاری کی طرف بالکل نہ تھا۔ الف شروع سے ہی شعر و حرف کا دلدادہ تھا۔ رومانی گیت سننا، آداب عرض مارکہ عشقیہ افسانے اور شاعری پڑھنا اس کا دل پسند مشغلہ تھا۔ گریجویشن کر کے وہ یونیورسٹی میں داخل ہوگیا۔ سر پر گھنے بال تھے، وہ جہاں ختم ہوتے تو مختصر سی پیشانی اور اس کے نیچی دو چھوٹی چھوٹی قدرے اندر دھنسی ہوئی آنکھیں۔ کانٹوں کی طرح ایستادہ سخت موئے بروت اور گریبان کو آخری بٹن تک بند کرلینے کے باوصف کالر کے پاس سے جھانکتے سینے کے بال۔ شروع کے دنوں میں وہ گلے میں سفید صافہ ڈالے رکھتا۔ منہ پھاڑ کے ہنستا تو زبان باہر نکل آتی۔ نشست و برخاست، انداز و اطوار و گفتار سبھی سے ٹپکتا ہوا گنوار پن۔ بس اک دل تھا کہ جہاں رومان کا بسیرا تھا۔ وہ رومان جو عطاء اللہ عیسٰی خیلوی کے گیت سنتے ہوئے سوتا اور محبت کے اشعار پڑھتا ہوا بیدار ہوتا۔ الف نے جب یونیورسٹی آکر ہلکے پھلکے غازے سے آراستہ رخساروں، سْرخی کی چھب دکھلاتے ہونٹوں، صاف ستھرے ہاتھ پیروں اور دھْلے بالوں والی لڑکیاں دیکھیں تو بھونچکا رہ گیا۔ تب برسوں سے شکار کا متلاشی، اس کے اندر کا رومان انگڑائی لے کے بیدار ہوا۔
جیم ایک بہت بڑے شہر سے آئی تھی۔ اس نے وہاں سے گریجویشن کی اور پھر اسی یونیورسٹی کے اسی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا جہاں کا الف بھی طالب علم تھا۔ جیم شکل و صورت کے اعتبار سے تو کچھ ایسی حور شمائل نہ تھی تاہم چونکہ بہت بڑے شہر سے آئی تھی، سو ناز و انداز، بناؤ سنگھار، فیشن اور اپنے قدرے بیباک رویوں کی وجہ سے جلد ہی یونیورسٹی میں پہچانی جانے لگی۔ گھنگریالے پن سے عاری، لمبے سیدھے بال وہ ہمہ وقت کھلے رکھتی۔ دھوپ کا چشمہ لگا کر یونیورسٹی کی روشوں پر چلتی تو یہ بال اس کے شانوں اور کمر پر رقص کرتے۔ ہمارا الف اس کو دیکھتے ہی دل ہار بیٹھا۔ دل و جاں فدا تھا مگر زبان گنگ کہ عشق کی سرکار میں اظہار کا یارا نہ تھا۔ اپنے ہم راز سے اس نے اپنی پسند کا اظہار یوں کیا "یار، ٹور کڈی سوہنڑی اے ایہدی، انج لگدا اے جیویں فئیٹ ٹریکٹر تیجے گئیر وچ جا ریا ہووے" دیہاتی پسِ منظر والے الف نے اب تک سب سے دلربا چال ٹریکٹر ہی کی دیکھی تھی۔
کلاس میں مختصر سی لڑکیاں تھیں سو وہ پہلی قطار میں پوری آجاتیں، الف کی پوری کوشش ہوتی کہ پچھلی قطار میں جیم کے عین عقب میں بیٹھے تاکہ ممکنہ حد تک قرب حاصل رہے۔ اْدھر جیم کو شاید علم بھی نہ تھا کہ اس کے جوتوں کے تلووں تلے اک جیتا جاگتا دل رکھا جاچکا ہے جس کا وہ اپنی بے نیازی کے ہاتھوں قدم قدم پر خون کرتی ہے۔
ایک دن کیا ہوا کہ کلاس جاری تھی۔ الف اپنی کرسی پر بیٹھا سامنے دراز زلفوں کی سیاہی میں کھویا ہوا تھا۔ اسی لمحے الف پر اس بے خودی کا وار ہوا جو عشق کا خاصا ہے۔ وہ بے خودی جو سید کو ایک ارائیں کے در پر رقص کناں کردیا کرتی ہے۔ وہ بے خودی جو سارے خوف نوچ پھینکتی ہے اور محبوب کے سوا دیگر سبھی اشیا و مناظر کہیں گم ہوجایا کرتے ہیں۔ الف نے دونوں ہتھیلیوں پر ان زلفوں کو سجایا اور بے اختیار اپنا چہرہ ان میں چھپا لیا:
اپنے سر اِک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لے لی
جیم کو تو خبر نہیں کہ پتہ چلا یا نہ مگر دائیں بائیں والوں نے یہ منظر دیکھ لیا۔ پھر بات جو نکلی تو دور تلک گئی۔ جیم تک بھی پہنچی، اس نے بڑی نخوت سے کہا کہ اب میرے لئے یہی رہ گیا ہے کیا۔ ہم جماعت ہونے کے ناطے پہلے اگر کبھی جیم، الف سے بات کر بھی لیتی تھی تو اب وہ بھی گئے وقتوں کا قصہ ہوا اور الف اس کی بے نیازیوں کا سب سے بڑا ہدف ٹھہرا۔ الف نے وہ بے خودی مستقل اوڑھ لی۔
اسی دوران ایک ستم اور ہوا۔ بے ان کا ہم جماعت تھا۔ وہ بھی اک بڑے شہر سے آیا تھا۔ کسرتی بدن، چوڑے شانے جن سے نیچے کمر کی طرف آتے اضلاع ریڑھ کی ہڈی کے اختتام کے قریب پہنچ کے انگریزی حرف وی۔ بناتے۔ عصر کے تقاضوں کے مطابق کپڑے پہنتا۔ باریک مونچھیں کناروں سے اوپر چڑھی رہتیں۔ پتہ نہیں ابتدا کس کی طرف سے ہوئی تاہم جس نے بھی آغاز کیا، دوسری طرف سے جواب مثبت ملا اور یونیورسٹی میں محبت کی ایک نئی کہانی شروع ہوگئی جو رفتہ رفتہ کنٹینوں پر، ہاسٹل کے کمروں میں موضوعِ گفتگو بن گئی۔ اب ہمارا الف مستقل بے خودی کی سی کیفیت میں رہنے لگا۔ بھری پری کنٹین پر اکیلا بیٹھا ہے۔ کبھی جو پوچھا کہ بھائی کلاس فیلوز میں آکر بیٹھا کرو، اکیلے کیوں رہتے ہو۔ جواباً کہتا "میں اکیلا کب ہوتا ہوں۔ محفل ہوتی ہے میرے ارد گرد" عطاء اللہ عیسٰی خیلوی کو وہ پہلے بھی بہت سنتا تھا، اب تو ہر وقت۔
بے اور جیم اپنے رومان میں مگن تھے۔ الف کو قطعی طور پر نظر انداز کردیا گیا تھا۔ ایک روز الف ٹیپ ریکارڈر میں نئے سیل ڈلوا کر ڈیپارٹمنٹ لے آیا۔ فری پیریڈ میں اس نے صافے میں لپٹا ٹیپ ریکارڈر نکالا اوراس پر عطاء اللہ کا گیت "تو بھی کسی کا پیار نہ پائے خدا کرے" چلا دیا۔ بے اور جیم کچھ دیر سنا کئے پھر اٹھ کر چلے گئے۔ نا آسودہ محبت اور ٹھکرائے جانے کے باوجود الف نے جتنا عرصہ یونیورسٹی میں گزارا، کبھی جیم کی طرف پشت نہیں کی۔ کہا کرتا تھا:
ملتان دا باز ہوندا
سجنڑاں نوں کنڈ کرئیے اللہ پاک نراض ہوندا
(جاری)