افغانستان کا استحکام محض افغانستان کے لیے ہی نہیں بلکہ پاکستان سمیت علاقائی وعالمی ممالک کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان، افغانستان کے معاملات کو علاقائی اور عالمی سیاست کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔
کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کامیاب نہیں ہوتے توسارا نزلہ یا الزام پاکستان پر ڈالا جائے گا۔ بھارت پہلے ہی پاکستان کی مخالفت میں اس بیانیہ کو تقویت دے رہا ہے۔ بھارت کا افغانستان کے تناظر میں پاکستان مخالف ایجنڈا سرفہرست ہے بلکہ اس میں زیادہ شدت نظر آتی ہے۔
طالبان حکومت کو چار بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ اول وہ ایسی عبوری حکومت بناسکیں جو افغانستان میں موجود تمام دھڑوں سمیت عالمی دنیا کے لیے قابل قبول ہو۔ دوئم عالمی دنیا طالبان کی حکومت کو قبول کرے۔ طالبان خود کو دنیا سے جوڑیں اور خود کو ایک بڑے عالمی فریم ورک میں دیکھیں۔ یہ عمل ان کی قبولیت کو ممکن بناسکے گا۔
سوئم طالبان کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ماضی کے نہیں بلکہ حال اور مستقبل کے طالبان ہیں اور ہم مخالفین کوساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرینگے اور انسانی حقوق کی حفاظت کرینگے۔ چہارم وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے پاک کریں گے اور افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔
اس وقت افغان طالبان ایک حقیقت ہیں، عالمی دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ان کو قبول نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ بدامنی میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ نقطہ کافی حد تک بجا ہے کہ طالبان حکومت عالمی دنیا سے اگر حمایت حاصل کرتی ہے تو اس کا بڑا انحصار ان کی حکمرانی کے طرز عمل اور ان پالیسیوں سے ہوگا۔
طالبان کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ وہ دنیا سے کٹ کر اپنا نظام نہیں چلاسکیں گے اور ان کو اگر اپنے اقتدار کو یا اس کی ساکھ کو قائم کرنا ہے تو خود کو سب کے لیے قابل قبول بنانا ہوگا۔ افغان عوام میں یہ اعتماد پیدا کرنا بھی طالبان حکومت کی بڑی ذمے داری ہے کہ وہ کسی کے خلاف نہیں اور سب کو اپنی سوچ اور فکر کے ساتھ کام کرنے کی اجازت ہوگی۔
عبوری سیٹ اپ آیا ہے، اس میں طالبان کی اپنی برتری ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ دوسرے اور تیسرے راؤنڈ میں یہ لوگ کس حد تک ایک Inclusive حکومت بناکر ان تمام خدشات کو دور کریں گے کہ طالبان تن تنہا افغانستان پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ مکمل طور پر Inclusive حکومت کا قیام آسان نہیں ہوگا مگر اس حکومت کی تصویر میں دیگر فریقین کی شمولیت ہی سب کی قبولیت کو ممکن بناسکتا ہے۔
یہ بات بجا ہے کہ طالبان کے اندر بھی دو سطح کے گروپس موجود ہیں جو Inclusive حکومت کی حمایت یا مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ ایسے میں طالبان کی حکومت کو داخلی محاذ پر بھی جو بڑا چیلنج درپیش ہے وہ ان کا اپنا داخلی استحکام ہے۔ اس بار طالبان کو ماضی کے مقابلے میں عالمی سطح پر زیادہ حمایت حاصل ہے، اس بار یہ حمایت زیادہ ہوسکتی ہے۔
افغان طالبان کو داخلی استحکام کو یقینی بنانے میں ایک بڑا چیلنج بھارت سے ہے۔ اگرچہ طالبان حکومت نے اپنی پالیسی میں واضح کیا ہے کہ وہ امریکا سمیت بھارت سے بہتر تعلقات چاہتی ہے لیکن بظاہر لگتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی سیاسی برتری اور اقتدار بھارت اپنے لیے ایک بڑی ناکامی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
افغان طالبان کو بھی بھارت کی سیاسی چالاکیوں سے خبردار رہنا ہوگا۔ اس وقت طالبان حکومت کو بلاوجہ غیر ضروری معاملات میں الجھنے کے بجائے اپنی توجہ افغانستان کے داخلی معاملات پر دینی چاہیے۔ کیونکہ جس حد تک طالبان داخلی محاذ پر اپنی ساکھ اور کنٹرول بنانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ یقینی طور پر علاقائی یا خارجی محاذ پر بہتر حکمت عملی اختیارکرسکیں گے۔