سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عوامی پارٹی کے جام کمال کے مستعفی ہونے کے بعد عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے بلامقابلہ نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پچھلے ایک ماہ میں جو بلوچستان میں جام کمال کے خلاف سیاسی کچھڑی پک رہی تھی جو ان ہی کی اپنی سیاسی جماعت کی پیدا کردہ تھی وہ نئے وزیر اعلیٰ کے بعد ختم ہوگئی ہے۔
کیونکہ سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کے بقول وہ اپنے تمام تر اختلافات کو بھول کر نئی حکومت کی حمایت کریں گے۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے اور جا م کمال سمیت ان کے حامی افراد نئی حکومت کی حمایت کرتے ہیں تو اس سے اختلافات کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ کیونکہ جام کمال نے بطور وزیر اعلیٰ اپنے خلاف اپنی ہی جماعت اور کچھ اتحادی جماعتوں کی سیاسی سازشوں پر بات کی تھی جو ان کے مستعفی ہونے کا سبب بھی بنی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جام کمال کے خلاف نئے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو نہ صرف اپنی ہی جماعت میں ایک بڑی حمایت حاصل تھی بلکہ ان کو حزب اختلاف کی جماعتوں کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آخر میں جام کمال نے اپنے مخالفین کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کا سامنے کرنے کے بجائے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ ان کو جب یقین ہوگیا کہ وہ اپنی اکثریت کھوچکے ہیں تو ان کے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی سیاسی آپشن موجود نہیں تھا۔
حالانکہ پہلے جام کمال نے ڈٹ کا تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنیکا فیصلہ کیا تھااور اسی تناظر میں ان کی اسلام آباد سیاسی یاترا بھی ہوئی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ وفاقی حکومت اوراپنے مصالحتی مشن اسلام آباد کی مدد سے حکومت بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے، مگر ایسا نہیں ہوسکا اور ان کو اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔
بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کا یہ کھیل کوئی نیا نہیں بلکہ ہمیشہ سے مختلف سیاسی اور غیر سیاسی ادوار میں ہم یہ دیکھتے رہے ہیں کہ مختلف نوعیت کی سیاسی تبدیلیوں یا سازشوں کو بنیاد بنا کر بلوچستان میں سیاسی استحکام کے نام پر سیاسی بحران پیدا کیا گیا۔ کوئی بھی وزیر اعلیٰ منتخب ہوتا ہے تو اسے اول تو کام نہیں کرنے دیا جاتا یا دوئم اس کے خلاف حکومت میں شامل افراد ہی مختلف سیاسی یا اسٹیبلیشمنٹ کی پشت پناہی کی بنیاد پر سازشوں سے حکومت کو گھر بھیجنے کا کھیل شروع کردیتے ہیں۔
جام کمال کو بھی حکومت سنبھالتے ہی اسی طرز کے بحران کا سامنا تھا اور اب یہ بحران ان کی حکومت کے خاتمہ کی صورت میں سامنے آیاہے۔ بلوچستان میں بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کی حیثیت ہمیشہ سے کمزور رہی ہے اور وہاں سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں سرداری نظام زیادہ مضبوط رہا ہے۔ اس لیے اسلام آباد میں بیٹھی سیاسی قیادت یا بڑی جماعتوں کی بھی اہمیت سیاسی جماعتیں کم اور سرداری سیاست کی اہمیت زیادہ رہتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی کامیابی میں ایک فیکٹر ان کی اپنی جماعت کے ساتھیوں کی معاونت تھی تو ان کو حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی اور وہ ان کی حمایت سے ہی وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ہمارے سیاسی کھیل میں بلوچستان کی حزب اختلاف اپنی اس سیاسی حمایت کی کیا قیمت نئے وزیر اعلیٰ یا بلوچستان حکومت سے وصول کرتی ہے۔
اگرچہ یہ امکان کم ہے کہ ان کو کابینہ میں شامل کیا جائے لیکن اس بات کی ان کو مکمل ضمانت دی جائے گی کہ بلوچستان حکومت اور وزیر اعلیٰ ان کے تمام سیاسی مفادات جن میں ترقیاتی فنڈز، نوکریوں یا تبادلوں میں مدد اور ان کے حلقوں میں اہم تقرری میں ان کی مرضی کو شامل کیا جائے گا۔
یہ بات بھی واضح تھی کہ جام کمال کے دور میں حزب اختلاف سمجھتی تھی کہ ان کو دیوار سے لگایا گیا ہے اور ہمیں جام کمال وہ اہمیت نہیں دیتے جو ہمیں ملنی چاہیے تھی۔ نئے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے لیے حزب اختلاف کے سیاسی نخرے اٹھانا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا اور اگروہ ان کے تمام مطالبات پورے نہیں کریں گے تو ان کی کمزور حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کے وزیر اعلیٰ بننے کے سیاسی کھیل میں کون ان کی سیاسی سرپرستی کررہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ جام کمال کو مستقبل کی سیاست اور بالخصوص بلوچستان عوامی پارٹی کے تناظر میں خطرہ سمجھتے تھے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اگرچہ ایسا لگتا تھا کہ وہ جام کمال کے ساتھ تھے، لیکن پس پردہ حقایق بتاتے ہیں کہ اس کھیل میں صادق سنجرانی کا کردار نمایاں تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے طور پر بھی سامنے آنا چاہتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جام کمال جیسی مضبوط سیاسی شخصیت کوتبدیل کرنا سیاسی ضرورت بنتا تھا۔
اس وقت بلوچستان کی ضرورت بڑے کرداروں کے لیے ایک کمزور وزیراعلیٰ کی تھی اور نئے وزیر اعلیٰ کی عملی کمانڈ ان کے مقابلے میں کسی اور کے ہاتھوں میں ہی ہوگی۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ بلوچستان کا بحران ٹل گیا ہے وہ درست نہیں اور کچھ عرصہ کے بعد ہمیں بلوچستان ہی کے تناظر میں نئے بحران بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ حزب اختلاف جو ہمیشہ سے بلوچستان عوامی پارٹی کو اسٹیبلیشمنٹ کی بنائی ہوئی بی ٹیم کے طور پر پیش کرتی رہی ہیں اور بالخصوص مولانا فضل الرحمن تو باپ پارٹی کے خلاف سخت گیررویہ رکھتے تھے لیکن اس نئی تبدیلی کے کھیل میں فضل الرحمن کی جماعت سمیت پی ڈی ایم نے وہی کھیل کھیلا ہے جو ہمیشہ سے پاکستان کی مفاداتی سیاست کے کھیل کا حصہ ہے۔
جام کمال بھی خوب جانتے ہیں کہ ان کو اقتدار کی سیاست سے کیسے الگ کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے کون لوگ ہیں جو کوئٹہ اور اسلام آباد کے درمیان سیاسی کھیل کھیلنے کے ماہر ہیں۔ اگرچہ وقتی طور پر انھوں نے سیاسی خاموشی اختیار کرلی ہے اور اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ وہ موجودہ نئی سیاسی تبدیلی کو قبول کرکے پارٹی معاملات پر اپنی گرفت قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں۔
ان کی تبدیلی کو بنیاد بنا کر جو کھیل کوئٹہ میں مستقبل کی سیاست کے تناظر میں بنایاجارہا ہے وہ اس میں خود کو سیاسی طور پر تنہا لڑنے کے بجائے سیاسی میدان اور بالخصوص اپنی جماعت میں رہ کر یہ لڑائی لڑنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کا مسئلہ اب بلوچستان میں بننے والی نئی حکومت نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنے سیاسی کارڈ 2023کے انتخابات کے تناظر میں کھیلنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ سیاسی طور پر اپنی اہمیت کو برقرار رکھ سکیں۔
بلوچستان کا مسئلہ ایک مضبوط سیاسی حکومت ہے کیونکہ جو مسائل بلوچستان اور وہاں کی عوام کو درپیش ہیں ان کا حل بھی ایک مضبوط سیاسی اور جمہوری نظام سے وابستہ ہے۔ بلوچستان میں سیاسی کٹھ پتلیوں کا کھیل وہاں کے عوام کوکوئی بڑا سیاسی اور معاشی فائدہ نہیں دے سکے گا۔
یہ جو بلوچستان میں محرومی کی سیاست ہے اس کا علاج مصنوعی سیاسی تبدیلیوں کا کھیل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بڑے لوگوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ بلوچستان کا مستقل علاج سیاسی اور جمہوری فریم ورک میں رہ کر ہی تلاش کریں۔ بظاہر بلوچستان کا بحران ٹل گیا ہے لیکن یہ عمل عارضی ہے اور مستقل وہاں بحران کی مختلف شکلیں عدم استحکام کی سیاست کو پیدا کرتے رہیں گی۔ کیونکہ ڈرائنگ روم کی طرزپر ہونے والی سیاست کے تانے بانے بھی مصنوعی ہوتے ہیں اور اس کھیل کا بڑا دار مدار پس پردہ سازشوں اور جوڑ توڑ کی سیاست کے علاوہ بڑی یا طاقت ور کے کھیل کا حصہ ہوتی ہے۔
اب دیکھنا ہوگا کہ بلوچستان کا بحران کس کروٹ بیٹھتا ہے او رکون کس کی پراکسی وار کھیل کر کھیل میں اپنے لیے نیا سیاسی حصہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ بندوبست کی سیاست ہمیشہ قومی سیاست کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہے اوراس سے قومی سیاست کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔