Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Iqtidar Ya Taaqat Ki Jung

Iqtidar Ya Taaqat Ki Jung

کیا حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کی سیاسی جدوجہد جمہوریت، قانون کی بالادستی یا سول بالادستی کے لیے ہے یا یہ بھی ماضی کی سیاسی، مذہبی تحریکوں کی طرح محض اقتدارکے حصول کی جنگ ہے۔

اگر یہ سیاست یا اقتدار کی جنگ کسی بڑے سیاسی و فکری یا نظریاتی اصولوں کے بجائے محض ذاتی، جماعتی یا کسی خاندانی مفادات کے گرد گھومتی ہو تو پھر جمہوریت کی منزل نہ صرف دور ہوتی ہے بلکہ کمزوری کا بھی سبب بنتی ہے۔ اس حزب اختلاف میں وہ تمام جماعتیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کے کھیل کا حصہ رہی ہیں یا ہیں۔

جو لو گ اس موجودہ حزب اختلاف کی تحریک کو جمہوری یا غیر جمہوری قوتوں کی جنگ کے طور پر پیش کر رہے ہیں اس میں تجزیہ کم اور خواہش کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔ نواز شریف کے سیاسی بیانیہ کو جمہوری یا قانون کی بالادستی کا رنگ بھرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان پچھلے دو برسوں سے اسٹیلیشمنٹ سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کرنے کے کھیل کا حصہ تھے۔ لیکن اب ان کے پاس جو ہتھیار بچتا تھا وہ بیچاری اور معصوم جمہوریت ہی ہے۔

سیاسی مہم جُو، جو حزب اختلاف کو جمہوریت کا استعارہ اور تحریک انصاف کی حکومت کو غیر جمہوری یا اسٹیبلیشمنٹ کے آلہ کارکے طور پر پیش کررہے ہیں حالانکہ اس حزب اختلاف کی بیشتر جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ ن کی مجموعی سیاست ہی اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت رہی ہے اور اب اسٹیبلیشمنٹ سے تعلقات میں خرابی کے باعث اس کے پاس جمہوریت ہی وہ سہارا ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ دوبارہ طاقت کے کھیل میں اپنے آپ کو حصہ دار بنانا چاہتی ہے۔ نواز شریف اور پی ڈی ایم کے بیانیہ کا جو سیاسی پیکیج ہے وہ جمہوریت سے زیادہ عمران خان کی حکومت کو جائز یا ناجائز یا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ گھر بھیجنا ہے۔

ماضی میں ہم کبھی یہ کھیل نواز شریف یا بے نظیر کو نکالنے یا اسے لانے کے طور پر کھیلتے رہے ہیں۔ منطق یہ دی جارہی ہے کہ حزب اختلاف کی تحریک چار بنیادی اصولوں پر کھڑی ہے۔ اول، سیاسی نظام کو ہر صورت آئین اور جمہوری تقاضوں کے مطابق چلنا چاہیے، دوئم، ہر ادارہ اپنے قانونی حدود کے اندر رہ کر کام کرے جو آئین میں اس کے لیے متعین ہیں۔

سوئم، منصفانہ اور شفاف انتخابات اور اس عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی عدم مداخلت، چہارم، عوام کی حاکمیت یا سول بالادستی کی عملی جنگ۔ ان تمام سوالوں کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا جو بھی جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی بات کرے گا وہ ان ہی نکات کو بنیاد بنا کر اپناسیاسی مقدمہ پیش کرے گا۔ لیکن ہماری مجموعی قومی سیاست میں سیاسی نعروں کو بنیاد بنا کر ایک حقیقی سیاسی جنگ کم اور جذباتیت کی بنیاد پر ان سیاسی نعروں کو " بطور ہتھیار " استعمال کرنے کی عملی جنگ نمایاں نظر آتی ہے۔

ہمارے اہل دانش کو اس پی ڈی ایم کی حمایت ضرور کرنی چاہیے اور یہ ان کا سیاسی حق ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں ان جمہوری اور سیاسی تجربہ کاروں سے کچھ سوالات بھی ضرور کرنے چاہیے۔ جب یہ لوگ اقتدار کی سیاست میں تھے تو کیوں نہیں یہ سب لوگ مل کر ملک میں جمہوریت، آئین، قانون اور پارلیمنٹ یا سول بالادستی، عوامی مفادات کی سیاست، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا مربوط نظام، آئینی، قانونی و انتظامی اداروں کی بالادستی، اداروں میں عدم سیاسی مداخلت، اپنی ہی سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کو جمہوری بنیاد پر استوار کرنا، احتساب کا منصفانہ نظام قائم کرنے، سیاست اور جرائم کے باہمی گٹھ جوڑ کے خاتمہ میں کیوں کچھ نہ کر سکے۔ آج ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے یا جن پر حزب اختلاف کا واویلا ہے اس پر اپنی ہی حکومتوں میں اصلاحات کا عمل کیوں نہیں ہوسکا۔

جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ سیاسی قیادت نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ زیادہ دور نہیں جاتے ہم پچھلے دو برس کی سیاست کا تجزیہ کرلیں تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو کچھ پس پردہ کھیل کھیلا جارہا تھا اور جس انداز سے یہ دونوں جماعتیں ان ہی پس پردہ قوتوں کے ساتھ مل کر کچھ لو اور کچھ دو کا کھیل کھیلنے کی کوشش کررہی تھیں وہ کیسے جمہوری سیاست کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ یعنی اگر اسٹیبلیشمنٹ سیاسی قوتوں کی حمایت کرے تو سب اچھا اور اگر مخالفت کرے تو پھر غلط اور ہم لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑیں اور اس جنگ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کریں۔

اس لیے موجودہ پی ڈی ایم کے بیانیہ کا جو سیاسی پیکیج ہے وہ محض حکومت کو گرانے اور عمران خان حکومت کو چلتا کرنے سے ہے۔ اس ملک کو کیسے بہتر بنانا ہے، حکمرانی کا متبادل نظام کیا ہوگا اس کے کوئی خدو خال موجود نہیں۔ یہ ہی حزب اختلاف کی قوتیں اسٹیبلیشمنٹ کو بھی پیغام دے رہی ہیں کہ وہ موجودہ حکومت سے شفقت کا ہاتھ اٹھا کر کر ہم پر اپنی شفقت کا مظاہرہ کریں۔ ملک کو جمہوری بنانے میں سب کو آگے بڑھنا چاہیے۔ لیکن یہ جمہوری جدوجہد کیا ہے اور اس میں عام آدمی کے مفادات، جمہوریت اور قانون سمیت ادارہ جاتی مفادات کو کیسے تقویت دینا ہے وہ واضح اور شفاف نظر آنا چاہیے۔