سیاسی اور جمہوری نظام کی بنیاد اصلاحات سے جڑی ہوتی ہے۔ جمہوریت انقلاب سے نہیں اصلاحات سے مضبوط ہوتی ہے۔ اصلاحات کے ایجنڈے کو تقویت دینے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں جو بھی جمہوری نظام ہے وہ اپنا داخلی احتساب کو یقینی بنا کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرے۔ اس وقت معاشرے کے تمام طبقات جمہوری نظام، اندازحکمرانی اور اداروں کی بدحالی پر آواز اٹھارہے ہیں۔ ان کے بقول جس انداز سے ملک کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بحران کے حل کے بجائے بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
ہمارا نظام عام آدمی کے مفادات کی بات تو بہت زیادہ شدت سے کرتا ہے، بڑے بڑے سیاسی نعرے بھی لگائے جاتے ہیں اور سیاسی طبقہ خود کو عوام کا سب سے بڑا ہمدرد یا چیمپین کے طور پر پیش کرتا ہے۔ لیکن حقایق یہ ہی ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت کے لفظوں اور عمل میں واضح فرق ہے، لیڈران بڑ ے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن حقایق اس کے برعکس ہیں۔ اس لیے اگر ہم نے واقعی سیاسی او ر جمہوری طور پر آگے بڑھنا ہے اور سیاست کو عوامی مفادات کے تابع کرنا ہے تو ہمیں موجودہ نظام میں اصلاحات کے ایجنڈا کو فوقیت دینی ہوگی۔
یہ کام کسی بھی روایتی، فرسودہ یا پرانے خیالات یا کسی مخصوص گروہ کے مفادات کے تابع بن کر نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ جو ہمارا ریاستی و حکمرانی کا بحران ہے، اس کا علاج غیر معمولی اقدامات سے ہی ممکن ہوگا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہمارا اصل مرض کیا ہے او راسی بنیاد پر علاج کی طرف بڑھنا ہوگا۔
سیاسی جماعتوں کو بنیادی بات یہ سمجھنی ہوگی کہ وہ محض خارجی معاملات پر گفتگو کرکے یا ان پر اپنا اپنا بیانیہ دے کر نظا م کی اصلاح نہیں کرسکتے، اس کے لیے ان کو اپنے داخلی معاملات کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ کیونکہ یہ عجیب تماشہ ہوگا کہ اگر سیاسی قیادتیں اپنے داخلی جمہوری نظام کا جائزہ لینے کے بجائے خود کو اپنی ہی جماعتوں میں ڈکٹیٹر شپ کے طور پر پیش کریں۔ ہماری سیاسی جماعتیں وقت کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی اہمیت کو کم کررہی ہیں اور لوگوں کو لگتا ہے کہ ان جماعتوں کے پاس ہماری زندگیوں کو تبدیل کرنے کا کوئی ایجنڈا نہیں۔
حالانکہ سیاسی نظام کی بڑی بقا ہی سیاسی جماعتوں کی مرہون منت ہوتی ہے او ران کا ہی کردار عملی طو رپر قومی سطح پر سیاست اور جمہوریت کی بہتری یا ساکھ کے معیارات کا تعین کرتا ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو جمہوری طور پر مضبوط کرنے کے بجائے ریاست یا حکمرانی کا بحران سیاسی سطح پر سیاسی تنہائی میں ممکن ہوگا تو وہ غلطی پر ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اپنے اپنے داخلی نظام میں خود کوجوابدہ بنانا ہوگا او رپارلیمانی سطح پر موجود سیاسی اداروں کو مضبوط اور فعال کرنا ہوگا۔
سیاست میں اہم کام ریاستی سطح پر دوسرے ممالک کے تجربات سے بھی سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ کیسے دنیا کے بیشتر ممالک نے اصلاحات کو بنیاد بنا کر اپنی حکمرانی سے جڑے مسائل کو کم کیا ہے۔ لیکن ایسے لگتا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ان ہی غلطیوں کو دہراتے ہیں یا ان میں اور زیادہ خرابیاں پیدا کرکے حکمرانی کے نظام میں مزید بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے حکمرانی کے نظام کی ایک اور بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اصلاحات کے عمل میں تسلسل کے عمل کو برقرار نہیں رکھتے۔
ہر آنے والی سیاسی حکومتیں پہلے سے موجود حکومتوں کے اقدامات یا اصلاحات پر مبنی ایجنڈے پر عدم اعتماد کرکے اسے مکمل ختم کرکے پھر نئے سرے سے اصلاحات کے ایجنڈے کوآگے بڑھاتی ہے، جو یقینی طورپر مستحکم او رتسلسل کے نظام کے خلاف ہے۔ جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جمہوریت کا تسلسل ہی ہم کو ایک بہتر جمہوری نظام دے سکتاہے، یہ بات سچ ہے مگر مکمل سچ نہیں۔ کیونکہ جمہوری عمل کو ایک واضح اور شفاف روڈ میپ درکار ہے۔
سیاست، دولت، منافع اور سرمائے کی بنیاد پر یا کرپشن و بدعنوانی کو بنیاد بنا کر جو بھی جمہوری نظام کو چلانے کی کوشش کی جائے گی وہ ایک ہی مخصوص طبقہ کے مفادات کو تقویت دے گااور عام آدمی کا سیاست اور جمہوری عمل میں راستہ روکنے کا سبب بنے گا۔ بدقسمتی سے یہاں موجود جمہوری نظام اپنے اندر اول تو موجود خامیوں کو قبول کرنے کے لیے ہی تیار نہیں او ر اگر تسلیم کرتا ہے تو اس کے لیے پالیسی یا قانون سازی کا عمل ہمیں بہت کمزور نظر آتا ہے۔
سیاست دان، ججز، بیوروکریٹ، اسٹیبلیشمنٹ سمیت بڑے طبقات کے لوگ زندگی تو پاکستان میں گزراتے ہیں، جب کہ دولت، جائیداد باہر کے ملکوں میں بناتے ہیں جو ان کے داخلی تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔ طبقاتی بنیادوں پر موجود سیاسی نظام ہی لوگوں کا اصل چیلنج ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں یہاں جمہوری نظام کو ایک بڑا چیلنج اسٹیبلیشمنٹ کی سیاسی مداخلتوں کابھی ہے۔
لیکن اس سے نمٹنے کا علاج بھی داخلی سطح پر جمہوری نظام کو مضبوط بنانا لیکن جمہوری قوتیں جنگ تو جمہوریت کے حق میں بڑی لڑنا چاہتی ہیں مگر خود کو عملی طور پر جمہوری طرزعمل اور جمہوری فریم ورک پیش کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں جمہوریت کی جنگ کی منزل نزدیک نہیں بلکہ اور دور ہوجاتی ہے۔